ہفتہ، 27 مارچ، 2021

قبر میں تختہ لگائے بغیر مٹی ڈال دینا

سوال :

مفتی صاحب میت کو قبر میں دفنانے کے بعد اسکے اوپر تختہ ڈالے بغیر سیدها میت پر مٹی ڈال دی گئی، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ میں ایک دیہات میں گیا تھا وہاں اسطرح کیا گیا تھا۔ آپ اس پر مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی منصور، پرتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میت کو قبر میں رکھنے کے بعد لحد کو کچی اینٹوں سے یا لکڑی کے تختوں سے  بند کر دینا سنت ہے تاکہ میت پر مٹی نہ گرے۔ اور یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے چلا آرہا ہے، لہٰذا اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
یہ طریقہ خلاف شریعت بھی ہے میت کو دفن کرنے کی صورت حدیث، فقہ، سے جو ثابت ہے وہ یہ ہے کہ قبر بناکر اس میں میت کو رکھا جائے اور اس طرح مٹی ڈالی جائے کہ میت پڑے اس کی دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ لحد بناکر اس میں میت کو رکھا جائے اورکچی اینٹیں لگادی جائیں تاکہ میت لحد میں محفوظ ہوجائے، پھرمٹی ڈال دی جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ شق بناکر اس میں میت کو رکھ کر اس پرتختہ رکھ کر میت کومحفوظ کردیا جائے، پھر مٹی ڈالدی جائے، غرض میت پرمٹی نہ ڈالی جائے، مسئلہ جب شریعت میں منصوص ہوتو پھر اس کے مقابلہ میں قیاس کرنا اورایسی علت تجویز کرنا جس سے نص ہی بے عمل رہ جائے جائز نہیں غلط ہے ،خلاف
اصول ہے۔ (فتاوی محمودیہ : ١٣/١٨٢)

معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جس دیہات میں قبر کو کچی اینٹ یا لکڑی کے تختوں سے بند کیے بغیر براہ راست میت پر مٹی ڈالی جارہی ہے ان کا یہ عمل سراسر شریعت کے خلاف ہے جس میں میت کی بے حُرمتی کا گناہ بھی ہے۔ لہٰذا انہیں اس سے بچنا ضروری ہے۔

عن عامر بن سعد بن أبي وقاص أن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ قال في مرضہ الذي ہلک فیہ: الحدوا لي لحداً، وانصبوا علي اللبن نصباً، کما صنع برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (صحیح مسلم، رقم: ۹۶۶)

ویستوي اللبن علیہ والقصب لما روی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام جعل علی قبرہ اللبن۔ (تبیین الحقائق ۱/ ۵۸۶)

ویسوی اللبن علی اللحد، وتسد الفرج بالمدور والقصب أو غیر ذلک کیلا ینزل التراب منہا علی المیت۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲۱؍۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شعبان المعظم 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں