پیر، 22 مارچ، 2021

گالی دینے والے کی امامت کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر کوئی امام ماں بہن کی گالی دے تو اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : شیخ امجد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی امام کا گالی دینے کا معمول ہو اور وہ اس عمل پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار بھی نہ کرے تو ایسا شخص شریعت کی نظر میں فاسق کہلاتا ہے، جس کی امامت مکروہ ہوتی ہے۔ البتہ اگر کبھی کسی امام کے منہ سے بشری کمزوری کے تحت گالی نکل جائے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ ہر انسان خطا کار ہے، بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرلے۔ (ترمذی) اور وہ اس گناہ پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار بھی کرلے تو اس کا گناہ معاف ہوجائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "التائب من الذنب كمن لا ذنب له " گناہوں سے توبہ کرنے والا گناہ گار بندہ بالکل اس بندے کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔

مطلب یہ ہے کہ سچی پکی توبہ کے بعد گناہ کا کوئی اثر اور داغ دھبہ باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا جب گالی دینے والا سچی پکی توبہ کرلے تو ایسے شخص کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

وکرہ إمامۃ الفاسق لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ ( تحتہ) کون الکراہۃ فی الفاسق تحریمیۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ،کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ قدیم/۱۶۵)

قال اللہ تعالیٰ : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)

عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کل بني آدم خطائون وخیر الخطائین التوابون۔ (سنن الترمذي رقم: ۲۵۰۱، سنن ابن ماجۃ رقم: ۴۲۵۱)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شعبان المعظم 1442

6 تبصرے: