اتوار، 14 مارچ، 2021

تاریخ کی سب سے طاقتور ترین معذرت نامی تحریر کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب! ایک تحریر "تاریخ کی سب سے طاقتور ترین معذرت" کے عنوان سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہے جس میں درج ذیل روایت ہے :
جب حضرتِ ابوذرؓ نے بلالؓ کو کہا۔ 
"اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا؟
بلال یہ سن کر غصے اور افسوس سے بے قرار ہو کر یہ کہتے ہوے اٹھے خدا کی قسم! میں اسے ضرور بالضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اٹھاؤں گا!
یہ سن کر اللہ کے رسول کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا: ابوذر! کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی؟
تمھارے اندر کی جہالت اب تک نہ گئی!!
اتنا سننا تھا کہ ابوذر یہ کہتے ہوے رونے لگے : یا رسول اللہ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئے، اور پھر روتے ہوے مسجد سے نکلے، باہر آکر اپنا رخسار مٹی پر رکھ دیا اور بلال سے مخاطب ہو کر کہنے لگے :
"بلال! جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پاؤں سے نہ روند دو گے، میں اسے مٹی سے نہ اٹھاؤں گا، یقیناً تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار!! یہ دیکھ کر بلال روتے ہوئے آئے اور ابوذر سے قریب ہو کر ان کے رخسار کو چوم لیا اور بے ساختہ گویا ہوئے:
خدائے پاک کی قسم ! میں اس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں، جس نے ایک بار بھی خدا کو سجدہ کیا ہو پھر دونوں کھڑے ہو کر گلے ملے اور بہت روئے۔    ( صحیح بخاری :31 )

آپ سے ادباً درخواست ہے کہ اس روایت کی تحقیق فرمادیں۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کی ارسال کردہ روایت میں بخاری شریف کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ بخاری اور مسلم شریف میں جو روایت ہے وہ اصلاً درج ذیل ہے :

حضرت معرور بن سوید سے روایت ہے کہ ہم ابوذر ؓ کے پاس سے مقام زبدہ میں گزرے اور ان پر ایک چادر تھی اور ان کے غلام پر بھی ان جیسی۔ تو ہم نے عرض کیا اے ابوذر! اگر آپ ان دونوں (چادروں) کو جمع کر لیتے تو یہ حلہ ہوتا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے اور میرے بھائیوں میں سے ایک آدمی کے درمیان کسی بات پر لڑائی ہوگئی اور اس کی والدہ عجمی تھی۔ میں نے اسے اس کی ماں کی عار دلائی تو اس نے نبی کریم ﷺ سے میری شکایت کی۔ میں نبی کریم ﷺ سے ملا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوذر! تو ایک ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! جو دوسرے لوگوں کو گالی دے گا تو لوگ اس کے باپ اور ماں کو گالی دینگے آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوذر! تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت (کا اثر) ہے وہ تمہارے بھائی ہیں اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ تو تم ان کو وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور انہیں وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام پر مجبور نہ کرو جو ان پر دشوار ہو اور اگر تم ان سے ایسا کام لو تو ان کی مدد کرو۔

بیہقی کی ایک روایت میں غلام سے مراد حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا ہے، بقیہ باتیں من گھڑت ہیں۔ لہٰذا آپ کی ارسال کردہ تحریر کا من وعن پھیلانا جائز نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ قَالَ مَرَرْنَا بِأَبِي ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ وَعَلَی غُلَامِهِ مِثْلُهُ فَقُلْنَا يَا أَبَا ذَرٍّ لَوْ جَمَعْتَ بَيْنَهُمَا کَانَتْ حُلَّةً فَقَالَ إِنَّهُ کَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْ إِخْوَانِي کَلَامٌ وَکَانَتْ أُمُّهُ أَعْجَمِيَّةً فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ فَشَکَانِي إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَقِيتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّکَ امْرُؤٌ فِيکَ جَاهِلِيَّةٌ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ سَبَّ الرِّجَالَ سَبُّوا أَبَاهُ وَأُمَّهُ قَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّکَ امْرُؤٌ فِيکَ جَاهِلِيَّةٌ هُمْ إِخْوَانُکُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيکُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْکُلُونَ وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ وَلَا تُکَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ کَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ۔ (متفق علیہ)

أنَّ أبا ذَرٍّ وبلالًا تَغَاضَبَا وتَسَابَّا وفي ثورةِ الغضبِ قال أبو ذَرٍّ لبلالٍ : يا ابنَ السَّوْدَاءِ فشكاه بلالٌ إلى النبيِّ فقال النبيُّ لأبي ذَرٍّ : أَعَيَّرْتَهُ بأُمِّهِ إنك امْرُؤٌ فيك جاهِلِيَّةٌ۔
الراوي: أبو ذر الغفاري المحدث: الألباني - المصدر: غاية المرام - الصفحة أو الرقم: 307
خلاصة حكم المحدث : صحيح بغير هذا السياق
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 شعبان المعظم 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں