بدھ، 24 مارچ، 2021

حدیث شریف "تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کے ہیں" کی مراد

سوال :

مفتی صاحب! آپ نے جو مسئلہ لکھا ہے کہ نابالغ بچوں کا مال ان کی اجازت کے باوجود لینا جائز نہیں ہے، اگر لیا گیا تو اس بدل دینا ضروری ہے تو پھر یہ حدیث انت ومالک لابیک کی رو سے اس مسئلہ پر کیا اثر پڑے گا؟ امید کہ مطمئن فرمائیں گے۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ضرورت مند والد کا نفقہ یعنی ضروریات زندگی کا پورا کرنا اس کے بیٹے پر لازم ہے، اگر والد محتاج اور غریب ہو اور اپنی اولاد کے مال کا محتاج ہو تو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لے کر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اس میں اولاد سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں، اور سوال نامہ میں مذکور حدیث کی یہی تشریح محدثین نے فرمائی ہے اور فقہاء کرام نے اسی کے مطابق حکم بیان فرمایا ہے۔ اگر یہ حکم مطلق ہوتا تو پھر قرآن کریم میں میراث کا جو حکم آیا ہوا ہے کہ والد کی زندگی میں کوئی بیٹا فوت ہوجائے تو بیٹے کے مال سے والد کو چھٹا حصہ ملے گا۔ یہاں بھی اگر اس روایت کو دلیل بنایا جائے کہ یہ مال والد کا ہی ہے تو پھر والد کو صرف چھٹا حصہ کیوں ملے گا؟

علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مثلاً والد کہیں کہ تمام کمائی اپنی ہم کو دیا کر تو اس میں بھی اطاعت واجب نہیں، اور اگر وہ اس پر جبر کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ اور حدیث ومالک لابیک محمول علی الاحتیاج کیف وقد قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یحل ما امریٔ الا بطیب نفس منہ اور اگر وہ حاجت ضروریہ سے بلا اذن زائد لیں گے وہ ان کے ذمہ دین ہوگا جس کا مطالبہ دنیا میں بھی ہو سکتا ہے اگر یہاں نہ دیں گے قیامت میں دینا پڑے گا۔ فقہاء کی تصریح اس کے لئے کافی ہے وہ احادیث کے معانی کو خوب سمجھتے ہیں خصوصاً جبکہ حدیث حاکم میں بھی اذا احتجتم کی قید مصرح ہے۔ (بوادر النوادر : ٤٤٣)

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ حدیث شریف انت ومالک لابیک کا حکم مطلق نہیں ہے، یعنی والد مطلقاً اپنی اولاد کے مال کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے۔ لہٰذا ہر جگہ اس روایت کو دلیل بنانا محدثین اور فقہاء کرام کی تشریحات اور تصریحات سے لاعلمی کی دلیل ہے۔

نابالغ کے ہدیہ سے متعلق ہم نے جو جواب لکھا ہے وہ مکمل غور وفکر اور تدبر کے بعد دلائل کی روشنی میں لکھا ہے، مسئلہ اسی طرح ہے جس طرح لکھا گیا ہے، اور اس سلسلے میں جو آسان حل ہے وہ بھی پیش کردیا گیا ہے، لہٰذا اب اس سلسلے میں مزید چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء۔ (حاشية السندي على سنن ابن ماجه :2/ 43)

عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا۔ (التيسير بشرح الجامع الصغير : 2/ 210)

وفي حديث جابر : أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى۔ (شرح سنن الترمذي : 20/ 262)

وَرُوِيَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّ «رَجُلًا جَاءَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَمَعَهُ أَبُوهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إنَّ لِي مَالًا وَإِنَّ لِي أَبًا وَلَهُ مَالٌ وَإِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَأْخُذَ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيك» أَضَافَ مَالَ الِابْنِ إلَى الْأَبِ فَاللَّامُ التَّمْلِيكِ وَظَاهِرُهُ يَقْتَضِي أَنْ يَكُونَ لِلْأَبِ فِي مَالِ ابْنِهِ حَقِيقَةُ الْمِلْكِ فَإِنْ لَمْ تَثْبُتْ الْحَقِيقَةُ فَلَا أَقَلَّ مِنْ أَنْ يَثْبُتَ لَهُ حَقُّ التَّمْلِيكِ عِنْدَ الْحَاجَةِ.
وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ «إنَّ أَطْيَبَ مَا يَأْكُلُ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِهِ فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ إذَا احْتَجْتُمْ إلَيْهِ بِالْمَعْرُوفِ» وَالْحَدِيثُ حُجَّةٌ بِأَوَّلِهِ وَآخِرِهِ أَمَّا بِآخِرِهِ فَظَاهِرٌ؛ لِأَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَطْلَقَ لِلْأَبِ الْأَكْلَ مِنْ كَسْبِ وَلَدِهِ إذَا احْتَاجَ إلَيْهِ مُطْلَقًا عَنْ شَرْطِ الْإِذْنِ وَالْعِوَضِ فَوَجَبَ الْقَوْلُ بِهِ.
وَأَمَّا بِأَوَّلِهِ فَلِأَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِهِ أَيْ: كَسْبُ وَلَدِهِ مِنْ كَسْبِهِ؛ لِأَنَّهُ جَعَلَ كَسْبَ الرَّجُلِ أَطْيَبَ الْمَأْكُولِ وَالْمَأْكُولُ كَسْبُهُ لَا نَفْسُهُ وَإِذَا كَانَ كَسْبُ وَلَدِهِ كَسْبَهُ كَانَتْ نَفَقَتُهُ فِيهِ؛ لِأَنَّ نَفَقَةَ الْإِنْسَانِ فِي كَسْبِهِ وَلِأَنَّ وَلَدَهُ لَمَّا كَانَ مِنْ كَسْبِهِ؛ كَانَ كَسْبُ وَلَدِهِ كَكَسْبِهِ وَكَسْبُ كَسْبِ الْإِنْسَانِ كَسْبُهُ، كَكَسْبِ عَبْدِهِ الْمَأْذُونِ فَكَانَتْ نَفَقَتُهُ فِيهِ۔ (بدائع الصنائع : ٤/٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شعبان المعظم 1442

3 تبصرے:

  1. کیا فرماتے علماء اِکرام اِس مسئلہ میں
    مسئلہ. دادا اپنی حیاتی میں کُچھ زمین یا (پلاٹ)اپنے پوتے کے نام پر کردے اور اُنھے مالک بھی بنادے تو دادا کے انتقال کے بعد یہ زمین یا پلاٹ پوتے کے ہونگے یا نہی ؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اگر انہیں اس کا مالک بنادے تو بلاشبہ ہبہ تام ہوجائے گا، اور یہ دادا کے انتقال کے بعد بھی پوتے کا ہی ہوگا۔

      واللہ تعالٰی اعلم

      حذف کریں
    2. قاری محمد حسن دیولالی6 مئی، 2022 کو 11:09 AM

      ماشاءاللہ اطمینان بخش جواب اللہم زد فزد

      حذف کریں