جمعرات، 11 مارچ، 2021

ہیلو Hello کہنے کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! درج ذیل میسج سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہتا ہے۔
امام کعبہ اور سعودی کے 70 علماء نے Hello کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ Hell کو مطلب ہے (جہنم) اور Hello کا (جہنمی) برائے مہربانی Hello کی جگہ السلام علیکم بولو۔ اس Msg کو اتنا Send کرو جتنا اللّٰہ سے پیار کرتے ہو۔
براہ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں۔
(المستفتی : انصاری محمد زید، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہیلو کا لفظ مخاطب کو متوجہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، انگریزی لغات میں بھی یہی دیا ہوا ہے، اس کا مطلب "جہنمی" کے نہیں ہے، اور یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ یہ لفظ  "ہیلو"  جہنم سے نکلا ہے، یہ بالکل بے سند بات ہے۔ اور ہماری تحقیق کے مطابق امام کعبہ اور عرب علماء نے بھی ایسا کوئی فتوی نہیں دیا ہے۔ یہ پوسٹ سراسر سوشل میڈیائی پیداوار ہے اور کچھ نہیں۔ البتہ فون پر یا کہیں بھی بات چیت کا اسلامی اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ "السلام علیکم" سے ابتداء ہو، اس کے بعد کہیں ضرورت ہوتو ہیلو کہنے میں حرج نہیں۔

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
لفظ ہیلو (Hello ) متوجہ کرنے کا کلمہ ہے (دیکھئے فیروزاللغات ص:۱۴۶۱) یعنی کسی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے جس کا مفہوم ہوتا ہے ”سنو“ عرف عام میں بھی اسی مقصد (خطاب و توجہ) کے لئے مستعمل ہوتا ہے، بولنے والے کے ذہن میں جہنم اور جہنمی کا مفہوم ہرگز نہیں ہوتا، اس لیے فون وغیرہ پر لفظ ہیلو کہنا ناجائز اور حرام نہیں، البتہ مسلمان کو چاہئے کہ اپنی گفتگو کا آغاز سلام سے کرے یہی سنت طریقہ ہے اور آغاز میں ہیلو کا استعمال نہ کیا جائے۔ (رقم الفتویٰ : 65855)

عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: السلام قبل الکلام۔ (سنن الترمذي، أبواب الاستیذان والآداب / باب السلام قبل الکلام ۲؍۹۹)

عن أبی ہریرۃ أن رسول اللہ ﷺ : قال : حق المسلم علی المسلم ست قیل: ماہن؟ یا رسول اللہﷺ ! قال : إذا لقیتہ فسلم علیہ وإذا دعاک فأجبہ الخ۔ (صحیح مسلم، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام، رقم: ۲۱۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رجب المرجب 1442

5 تبصرے: