بدھ، 24 مارچ، 2021

اسکولوں میں بچوں کو ملنے والا اناج گھر والوں کا استعمال کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ پہلے اسکولوں میں تمام بچوں کو حکومت کی طرف سے مڈڈے میل کے نام سےکھچڑی تقسیم  کی جاتی تھی وہ اس لئے کہ کوئی بھی بچہ بھوکا نا رہے۔ اب کرونا مہاماری کی وجہ سے اسکولیں بند ہیں ایسے میں تمام بچوں کو کچے چاول، چنا اور دال تقسیم کیے جاتے ہیں تو اس صورت میں کیا یہ تمام چیزیں گھر کے سب افراد استعمال کر سکتے ہیں؟
(المستفتی : ڈاکٹر شہباز/ شہزاد سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کی جانب سے اسکولی طلباء کو ملنے والا اناج ہر امیر غریب طالب علم کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا ہر امیر غریب طالب علم کے لیے اس کا لینا جائز ہے، البتہ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بچے چونکہ نابالغ ہوتے ہیں، اور نابالغ بچوں کو جو رقم یا اشیاء بطور انعام یا امداد کہیں سے ملے وہ بچوں کی ہی ملکیت ہوتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو ملنے والے اس اناج کا استعمال گھر والوں کے لیے درست نہیں ہے۔ اگر بچے خود سے یہ اناج والدین کو دیں تب بھی گھر والوں کے لیے اس کا استعمال درست نہیں ہے۔ کیونکہ نابالغ بچوں کا ہدیہ شرعاً غیرمعتبر ہے، یعنی اگر نابالغ  اپنے مال میں سے کسی کو  ہدیہ  دے تو اس  کا  قبول کرنا بھی جائز نہیں، ہدیہ کے صحیح ہونے کے لئے ہدیہ دینے والے کا بالغ ہونا شرط ہے۔

چونکہ یہ اناج ان نابالغ بچوں کی ملکیت میں ہے، لہٰذا اس اناج کو بچوں سے خریدے بغیر غریبوں میں تقسیم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس کے استعمال کی جائز صورت یہ ہے کہ اس اناج کی مناسب قیمت طے کرلی جائے گویا کہ یہ اناج بچوں سے خریدا گیا ہے، اور یہ رقم بچوں کو دے دی جائے، البتہ اس رقم کا یکمشت بچوں کو دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ نیت کرلی جائے کہ یہاں سے دو یا تین مہینے یا اس سے زیادہ مدت تک اب جب بھی بچوں پر کوئی رقم خرچ کروں گا یا بچوں کو خرچ کرنے کے لیے رقم دوں گا تو یہ رقم اس اناج کا ہی بدل ہوگی۔ ماضی میں اس سلسلے میں کوتاہی ہوئی ہو اور اب بچے بالغ ہوگئے ہوں اور وہ یہ رقم معاف کردیں تو معاف ہوجائے گی۔

وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، باب الہبۃ، ٤/٣٧٤)

(وَشَرَائِطُ صِحَّتِهَا فِي الْوَاهِبِ الْعَقْلُ وَالْبُلُوغُ وَالْمِلْكُ) فَلَا تَصِحُّ هِبَةُ صَغِيرٍ وَرَقِيقٍ، وَلَوْ مُكَاتَبًا۔ (شامی، کتاب الہبۃ، ٥/٦٨٧)

وسئل علی رضی اللہ عنہ من التوبۃ فقال یجمعھا ستۃ اشیاء علی الماضی عن الذنوب الندامۃ وللفرائض الاعادۃ ورد المظالم واستحلال الخصوم وان تعزم علی ان لاتعودوان تربی نفسک فی طاعۃ اللہ کماربیتہا فی معصیۃ انتہی۔ (تفسیر بیضاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شعبان المعظم 1442

5 تبصرے: