جمعرات، 25 مارچ، 2021

گم شدہ بیٹے کا میراث میں حصہ

سوال :

زید کا ایک بیٹا بچپن میں گم ہوگیا پھر کچھ سالوں کے بعد زید کا انتقال ہوگیا۔ بچے کے گم ہوئے تقریباً ٣۵ سال ہوگئے مگر اب تک کوئی پتہ نہیں۔ زید کی دیگر اولاد اب ترکہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تو اس بیٹے کا حصہ لگے گا یا نہیں؟ اگر لگے گا تو اس کا حصہ کیا کیا جائے؟
(المستفتی : مولوی عبداللہ، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں زید کا ترکہ زید کے گم شدہ بیٹے کو حیات سمجھ کر تقسیم کیا جائے گا اور اس کے حصے کو اس وقت تک محفوظ رکھا جائے گا جب تک اس کی موت کا یقینی علم نہ ہوجائے یا اس کی عمر نوے سال نہ ہو جائے، اس کے بعد بھی اگر وہ واپس نہ آئے تو اسے مردہ خیال کرکے اس کے مال کو ان کے وارثوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔

إذا غاب الرجل فلم یعرف لہ موضع ولا یعلم أحی ہو أم میت نصب القاضی من یحفظ مالہ ویقوم علیہ ویستوفی حقہ لأن القاضی نصب ناظرا لکل عاجز عن النظر لنفسہ والمفقود بہذہ الصفۃ وصار کالصبی والمجنون۔ (ہدایہ، باب المفقود، ۲/۶۲۰)

المفقود حي فی مالہ حتی لا یرث منہ أحد … واختلف الروایات فی تلک المدۃ… وقال بعضہم تسعون سنۃ وعلیہ الفتویٰ۔ (سراجی فی المیراث ص:۹۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 شعبان المعظم 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں