منگل، 23 مارچ، 2021

کیلا کھانے کا مسنون طریقہ؟

سوال :

مفتی صاحب! ایک بات لوگ سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ کیلا الٹی طرف سے کھانا چاہئے کیا یہ صحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شارق انور، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کیلا کس طرح کھایا جائے اس سلسلے میں باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی طریقہ منقول نہیں ہے۔

البتہ اتنی بات روایات میں ملتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب سال کا پہلا پھل تیار ہوتا دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے اور آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے :
اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي ثِمَارِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَأَنَا أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِهِ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ۔ترجمہ : اے اللہ ہمارے لئے ہمارے پھلوں، ہمارے شہر، ہمارے صاع اور ہمارے مد (ناپ تول کے پیمانے) میں برکت پیدا فرما۔ اے اللہ ابراہیم علیہ السلام تیرے دوست، بندے اور نبی تھے انہوں نے تجھ سے مکہ کیلئے دعا کی تھی۔ میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں۔ میں تجھ سے مدینہ کیلئے وہی کچھ مانگتا ہوں جو انہوں نے مکہ مکرمہ کیلئے مانگا تھا بلکہ اس سے دوگنا۔
پھر نبی اکرم ﷺ کسی چھوٹے بچے کو جو نظر آتا بلاتے اور وہ پھل اسے دے دیتے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
ایسی کوئی حدیث یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہماری نظر سے نہیں گذرا، جس کی بنا پر کسی خاص طریقہ کو سنت کہا جائے۔ بظاہر ادب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سے چھیلنا سہل اور آسان ہو۔ (رقم الفتوی : 160624)

معلوم ہوا کہ جس طرح کیلا چھیلنا آسان ہو اس طرح چھیل کر کھانا بہتر ہے، تاہم اسے بھی مسنون نہ کہا جائے۔ نیز کیلے کے اس حصے سے چھیلنا جسے الٹا حصہ کہا جاتا ہے اور اسے ہی مسنون قرار دینا درست نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَائُوا بِهِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي ثِمَارِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَأَنَا أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِهِ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ قَالَ ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ يَرَاهُ فَيُعْطِيهِ ذَلِکَ الثَّمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی «هذا حديث حسن صحيح»۔ (سنن الترمذی، رقم : ٣٤٥٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 شعبان المعظم 1442

5 تبصرے: