جمعہ، 16 ستمبر، 2022

مکڑیوں کو مارنے کا شرعی حکم

سوال :

مفتی محترم! گھر میں اگر مکڑی ہو تو اسے مارنا کیسا ہے؟ ایسا کہا جاتا ہے کہ مکڑی نے غار حرا کے منہ پر جالا بناکر حضور کی حفاظت کی تھی اس لیے اسے نہیں مارنا چاہیے۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ابو سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق دو غاروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلی وحی نازل ہوئی وہ غار حرا تھی۔ اور مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت راستے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس غار میں پناہ گزیں ہوئے اس غار کا نام غار ثور ہے۔ سوال نامہ میں آپ نے غار ثور کو غار حرا لکھ دیا ہے، لہٰذا اس کی تصحیح کرلی جائے۔

گھروں میں رہنے والی مکڑیاں عموماً موذی نہیں ہوتیں، لہٰذا ان کو مارنے سے بچنا چاہیے۔ جالوں کو تو بلاشبہ صاف کیا جائے گا، اسی وقت انہیں ہانک دیا جائے تو کنارے بھاگ جاتی ہیں، یا پھر اگر جالے صاف کرنے میں اگر اپنے آپ مر جائیں تو حرج نہیں۔ جو مکڑیاں موذی اور تکلیف پہنچانے والی ہوں تو پھر انہیں مارنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

معتبر روایات میں اتنی بات ملتی ہے کہ ہجرت کے وقت مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تلاش کرتے ہوئے نکلے اور وہ اسی غار کے پاس سے بھی گذرے (جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پناہ گزین تھے) لیکن انہیں غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا دکھائی دیا، جسے دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) یہاں ہوتے تو اس غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا۔

تحت آیۃ ’’ان اوھن البیوت لبیت العنکبوت الآیۃ‘‘……وقیل لایسن قتلھا فقد اخرج الخطیب عن علی کرم اﷲ وجھہ قال قال رسول اﷲﷺ دخلت انا وابوبکر الغار فاجتمعت العنکبوت فنسجت بالباب فلا تقتلوھن۔ ذکر ھذا الخبر الجلال السیوطی فی الدرالمنثور واﷲ تعالی اعلم لصحتہ وکونہ ممایصلح للاحتجاج بہ …… وذکر انہ یحسن ازالۃ بیتھا من البیوت لمااسند الثعلبی وابن عطیۃ وغیرھما عن علی کرم اﷲ وجھہ انہ قال: طھروا بیوتکم من نسج العنکبوت فان ترکہ فی البیوت یورث الفقر وھذا ان صح عن الامام کرم اﷲ وجھہ فذاک والافحسن الازالۃ لمافیھا من النظافۃ ولاشک بندبھا۔ (روح المعانی : ۱۶۱/۲۰)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِي عُثْمَانُ الْجَزَرِيُّ، أَنَّ مِقْسَمًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ : { وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ } قَالَ : تَشَاوَرَتْ قُرَيْشٌ لَيْلَةً بِمَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِذَا أَصْبَحَ فَأَثْبِتُوهُ بِالْوَثَاقِ ؛ يُرِيدُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلِ اقْتُلُوهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ أَخْرِجُوهُ، فَأَطْلَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ، فَبَاتَ عَلِيٌّ عَلَى فِرَاشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى لَحِقَ بِالْغَارِ، وَبَاتَ الْمُشْرِكُونَ يَحْرُسُونَ عَلِيًّا، يَحْسَبُونَهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحُوا، ثَارُوا إِلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَوْا عَلِيًّا، رَدَّ اللَّهُ مَكْرَهُمْ، فَقَالُوا : أَيْنَ صَاحِبُكَ هَذَا ؟ قَالَ : لَا أَدْرِي، فَاقْتَصُّوا أَثَرَهُ، فَلَمَّا بَلَغُوا الْجَبَلَ خُلِّطَ عَلَيْهِمْ، فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلِ، فَمَرُّوا بِالْغَارِ، فَرَأَوْا عَلَى بَابِهِ نَسْجَ الْعَنْكَبُوتِ، فَقَالُوا : لَوْ دَخَلَ هَاهُنَا، لَمْ يَكُنْ نَسْجُ الْعَنْكَبُوتِ عَلَى بَابِهِ، فَمَكَثَ فِيهِ ثَلَاثَ لَيَالٍ۔ (مسند احمد، رقم : ٣٢٥١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 صفر المظفر 1444

1 تبصرہ: