جمعرات، 29 ستمبر، 2022

جب جب نکاح کروں میری بیوی کو تین طلاق کہنا

سوال :

محترم المقام جناب مفتی صاحب! بہت ہی پیچیدہ مسئلہ در پیش ہے۔ کلاس میں ایک طالب علم سبق نہیں سنا سکا جس کی وجہ سے استاذ نے بہ طور سزا شاگرد سے کہا  کہ اگر اب آئندہ سبق نہیں سنائے تو تم قسم کھاؤ کہ جب جب بھی نکاح کرو گے عورت کو تین طلاق، شاگرد قسم قبول کرتے ہوئے کہا " اب میرا سبق کا ناغہ نہیں ہوگا اور اگر میرا سبق کا ناغہ ہوا تو میں قسم کھاتا ہوں جب جب نکاح کروں لڑکی کو تین طلاق" جب کہ شاگرد بالغ ہے، اگر شاگر کا سبق کا ناغہ ہوجائے، تو کیا شاگرد جتنی بھی عورتوں سے نکاح کرے گا ہر مرتبہ عورت پر نکاح ہوتے ہی تین طلاق واقع ہو جائے گی؟ اس کا کوئی حل مل جاتا تو بہتر ہوگا۔ اگر یہی مسئلہ نابالغ لڑکا کے ساتھ پیش آئے تو کیا حکم ہوگا؟
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگرکسی شخص نے اس طرح کہا کہ اگر میں فلاں کام کروں تو جب جب میں نکاح کروں میری بیوی پرتین طلاق، لہٰذا جب جب وہ نکاح کرے گا اس کی بیوی پر تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔

صورتِ مسئولہ میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ طالب علم نے جب بھی سبق کا ناغہ کردیا تو جب جب وہ نکاح کرے گا اس کی بیوی تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔ البتہ اس قسم سے بچنے کے لئے تدبیر یہ ہے کہ کوئی شخص جو کہ حالات سے واقف ہو وہ جس عورت سے اس کا نکاح مناسب سمجھے بحیثیت فضولی نکاح کردے، مثلاً اس عورت سے کہے میں نے تمہارا نکاح اتنے مہر پر فلاں شخص سے کردیا وہ عورت جواب میں کہے کہ میں نے اس کو قبول کیا، اور ایجاب وقبول کم ازکم دوگواہوں کے سامنے ہو، پھر یہ فضولی اس قسم کھانے والے سے آکر کہے کہ میں نے فلاں عورت سے تمہارا نکاح کردیا ہے، اتنا مہرلاؤ، وہ زبان سے کچھ نہ کہے بلکہ کل یا جزو مہر دیدے، پھر وہ مہر عورت کے پاس پہنچا دے، اس طرح اس نکاح فضولی کی یہ اجازت فعلی ہوئی، جس سے نکاح درست ہوگیا، اور اس عورت پر طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ اگر طالب علم نابالغ ہوتو وہ شریعت کا مکلف نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

فضولی اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ خود صاحب معاملہ ہو نہ صاحب معاملہ کا ولی ہو اور نہ وکیل ہو، بلکہ ایک عام آدمی ہو جو کسی کی طرف سے معاملہ کرلے تو اس کا یہ معاملہ اصل صاحب کے اختیار پر موقوف رہیگا، اسی طرح نکاح کے سلسلہ میں بھی ہے کہ وہ کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر کردے اور بعد میں اس کو اس کی اطلاع کردے تو وہ اسی وقت اسی مجلس میں اس پر راضی ہوجائیں تو نکاح ہوجائے گا۔

فَفِي جَمِيعِهَاأَيْ جَمِيعِ الْأَلْفَاظِ إذَا وُجِدَ الشَّرْطُ انْتَهَتْ الْيَمِينُ إلَّا فِيْ كُلَّمَا فَإِنَّهَا تَنْتَهِي فِيهَا بَعْدَ الثَّلَاثِ مَا لَمْ تَدْخُلْ عَلَى صِيغَةِ التَّزَوُّجِ لِدُخُولِهَا عَلَى سَبَبِ الْمِلْكِ فَلَوْ قَالَ كُلَّمَا تَزَوَّجْت امْرَأَةً فَهِيَ طَالِقٌ تَطْلُقُ بِكُلِّ تَزَوُّجٍ، وَلَوْ بَعْدَ زَوْجٍ آخَرَ۔ وَالْحِيلَةُ فِيهِ عَقْدُ الْفُضُولِيِّ أَوْ فَسْخُ الْقَاضِي الشَّافِعِيِّ، وَكَيْفِيَّةُ عَقْدِ الْفُضُولِيِّ أَنْ يُزَوِّجَهُ فُضُولِيٌّ فَأَجَازَ بِالْفِعْلِ بِأَنْ سَاقَ الْمَهْرَ وَنَحْوَهُ لَا بِالْقَوْلِ فَلَا تَطْلُقُ۔ (مجمع الانہر : ١/٤١٨)

(وَأَمَّا شَرَائِطُهَا فِي الْيَمِينِ بِاَللَّهِ تَعَالَى) فَفِي الْحَلِفِ أَنْ يَكُونَ عَاقِلًا بَالِغًا، فَلَا يَصِحُّ يَمِينُ الْمَجْنُونِ، وَالصَّبِيِّ، وَإِنْ كَانَ عَاقِلًا، وَمِنْهَا أَنْ يَكُونَ مُسْلِمًا فَلَا يَصِحُّ يَمِينُ الْكَافِرِ حَتَّى لَوْ حَلَفَ الْكَافِرُ عَلَى يَمِينٍ ثُمَّ أَسْلَمَ فَحَنِثَ لَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ عِنْدَنَا كَذَا فِي الْبَدَائِعِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٥١)

كُلُّ عَقْدٍ صَدَرَ مِنْ الْفُضُولِيِّ وَلَهُ قَابِلٌ يُقْبَلُ سَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ الْقَابِلُ فُضُولِيًّا آخَرَ أَوْ وَكِيلًا أَوْ أَصِيلًا انْعَقَدَ مَوْقُوفًا هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ وَشَطْرُ الْعَقْدِ يَتَوَقَّفُ عَلَى الْقَبُولِ فِي الْمَجْلِسِ وَلَا يَتَوَقَّفُ عَلَى مَا وَرَاءَ الْمَجْلِسِ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٩٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الاول 1444

2 تبصرے:

  1. اگر قسم توڑ کرکفارہ دے تو نکاح ہوگا کہ نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. اگر کسی نے قسم کھائی میں جب نکاح کرو میری بیوی کو طلاق ہے جس بندے سے جھوٹی قسم کھائی ہے اب اگر اس قسم کو واپس رجوع کرے کہ میں نے جھوٹی قسم کھائی تھی کیا اس کی قسم باطل ہو جائیگی کیا اس کے رجوع کرنے کے بعد وہ قسم سے بری ہوگا یا نہیں اور کسی بھی عورت سے نکاح کرنے سے اسکی بیوی کو اب طلاق ہوگی یا نہیں

    جواب دیںحذف کریں