پیر، 26 ستمبر، 2022

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک سن کر انگوٹھے چومنا

سوال :

محترم المقام مفتی صاحب! کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سننے یا پڑھنے پر انگوٹھے کو آنکھوں میں لگا کر چومنا مستحب عمل ہے؟ جیسا کہ حضرت امام شامی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کنز العباد میں لکھا ہے۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان میں یا کسی بھی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ مبارک سننے پر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا سنت نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا کوئی حکم نہیں دیا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ عمل نقل کیا گیا ہے۔ جن روایات کو اس بارے میں بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے ان کے بارے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب موضوع (من گھڑت) یا سخت ضعیف ہیں۔ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الاحادیث التی رویت فی تقبیل الانامل وجعلھاعلی العینین عندسماع اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم من المؤذن فی کلمۃ الشھادۃ کلھا موضوعات۔
ترجمہ : وہ حدیثیں جن میں مؤذن سے کلمہ شہادت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنتے وقت انگلیاں چومنے اور آنکھوں پر رکھنے کاحکم آیا ہے وہ سب کی سب موضوع اور جعلی ہیں۔

اسی طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں اور اس کی سند بھی منقطع ہے۔

معلوم ہوا کہ انگوٹھے چومنا کسی حدیث مرفوع سے ثابت نہیں۔ لہٰذا یہ سنت بلکہ مستحب بھی نہیں ہے۔ یہ عمل بعض بزرگوں نے آنکھیں نہ دُکھنے کے لیے بتایا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اس کوسنت نہ سمجھے اور آنکھوں کے نہ دُکھنے کے لیے بطور ایک علاج کے عمل کرے تو اس کے لیے فی نفسہ یہ عمل مباح ہوگا، مگر لوگ اس کو شرعی چیز اور سنت سمجھ کر کرتے ہیں جسے بلاشبہ بدعت اور ناجائز ہی کہا جائے گا۔

اور وہ کتابیں جن سے علامہ شامی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے یعنی کنزالعباد، فتاویٰ صوفیہ، کتاب الفردوس، سب غیرمعتمد ہیں جیسا کہ نافع الکبیر اور بستان المحدثین میں تصریح کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کنز العباد علامہ شامی رحمہ اللہ کی تصنیف نہیں ہے بلکہ یہ کتاب علی ابن احمد غوری کی تصنیف ہے۔

مزید تفصیلات اور تشفی کے لیے مفتی راشد صاحب ڈسکوی کی تصنیف "انگوٹھے چومنے سے متعلق بعض فقہاء احناف ؒکی ایک عبارت کی تحقیق" ملاحظہ فرمائیں۔

وذکر ذلک الجراحی وأطال، ثم قال : ولم یصح فی المرفوع من کل ہذا شیء۔ (شامی : ۶۸/۲)

’’الفتاویٰ الصوفیۃ في طریق البھائیۃ‘‘ لفضل اللہ محمد بن أیوب المنتسب إلیٰ ماجو ۔ قال صاحب کشف الظنون: قال المولیٰ البرکلي: الفتاویٰ الصوفیۃ لیست من الکتب المعتبرۃ، فلا یجوز العمل بما فیھا إلا إذا علم موافقتھا للأصول‘‘۔ (کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، حرف الفاء: ۲؍۱۲۲۵،دار إحیاء التراث العربي، بیروت/الأعلام للزرکلي، الماجوری:۶؍۴۷، دار العلم للملایین، بیروت/ النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمۃ الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:۲۷، إدارۃ القرآن کراتشي)

وکذا’’کنز العباد‘‘ فإنہ مملوئٌ من المسائل الواھیۃ والأحادیث الموضوعۃ، لا عبرۃَ لہ، لا عند الفقہاء ولا عند المحدثین، قال علي القاري فيطبقات الحنفیۃ: ’’علي بن أحمد الغوري………… ولہ ’’کنز العبادفي شرح الأوراد‘‘، قال العلامۃ جمال الدین المرشدي: فیہ أحادیث سمجۃ موضوعۃ لا یحل سماعھا، انتھیٰ‘‘۔ (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمۃ الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:۲۷، إدارۃ القرآن کراتشي)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 صفر المظفر 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں