پیر، 5 ستمبر، 2022

سرکاری ونیم سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کا اپنی جگہ کسی اور کو اسکول بھیجنا

سوال :

حکومت سے منظور شدہ یا مقامی انتظامیہ کی اسکولوں میں  جو بھی معلم تدریس کرتا ہو اگر وہ اپنی موجودگی میں یا غیر موجودگی میں کسی دوسرے شخص کو تدریس کے لیے اپنی جماعت میں اپنی طرف سے تدریس کے لیے لگائے اور اسے تدریس کے بدلے پیسہ بھی دے، لیکن حکومت یا جو مقامی انتظامیہ ہو وہ اسے درست نہیں سمجھتی ہو تو کیا اس طرح سے ملازمت کررہے معلم کی تنخواہ کمانا صحیح ہے؟ کسی دوسرے سے کام کروانا اور خود پوری تنخواہ لے کر کچھ ہی پیسے کام کرنے والے کو دینا مناسب ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالرزاق سر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سرکاری یا نیم سرکاری اسکولوں کے اساتذہ جن کی تنخواہیں حکومت کی جانب سے آتی ہیں وہ اس سلسلے میں بھی حکومت کے قوانین کے پابند ہیں، اگر حکومت کی جانب سے اس کی اجازت نہ ہو جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو پھر اساتذہ کا اپنے طور پر اپنی جگہ کسی اور کو اسکول بھیجنا اور اسے کچھ رقم دے دینا اور تنخواہ کی بقیہ رقم خود رکھ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ غیرحاضری کے ان ایام کی تنخواہ ان کے لیے حلال نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
سرکاری ملازم کا بغیر اجازت کے دوسرے شخص کو اپنی جگہ ڈیوٹی پر بھیجنا اور ایام غیر حاضری کی تنخواہ وصول کرنا اور اس تنخواہ کو دوسرے شخص کو دینا اور اس کا لینا جائز نہیں۔ (رقم الفتوی : 602204)

لہٰذا جن اساتذہ نے ایسا کرلیا ہے ان پر ضروری ہے کہ وہ ان ایام کی تنخواہ حکومت کو واپس کریں، اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو یہ رقم بلانیتِ ثواب فقراء اور مساکین میں صدقہ کریں اور توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ آئندہ ایسی دھوکہ بازی نہ کرنے کا عزم بالجزم بھی کریں تب ہی ان کے گناہ معاف ہوں گے۔

أَنَّ النَّائِبَ لَا يَسْتَحِقُّ شَيْئًا مِنْ الْوَقْفِ لِأَنَّ الِاسْتِحْقَاقَ بِالتَّقْرِيرِ، وَلَمْ يُوجَدْ وَيَسْتَحِقُّ الْأَصِيلُ الْكُلَّ إنْ عَمِلَ أَكْثَرَ السَّنَةِ۔ (شامی : ٤/٤٢٠)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 صفر المظفر 1444

2 تبصرے: