جمعہ، 23 ستمبر، 2022

بیوی کو اس کے میکہ سے حصہ لانے کے لیے کہنا

سوال :

مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی بیوی کو حصہ لے کر آ کہتے ہیں اور جب بیوی کچھ کہتی ہے تو پھر دونوں میں جھگڑا ہوجاتا ہے اور بات بہت بگڑ جاتی ہے پوچھنا یہ ہے کہ شوہر کا بیوی کو حصہ کے بارے حکم دینا درست ہے یا نہیں؟ اور اگر بیوی کو حصہ مل جائے تو اس پر شوہر کا کیا حق ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی لڑکی خواہ وہ شادی شدہ ہو یا کنواری، اس کے والد کا انتقال ہوتو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے۔ لیکن وہ ملنے والے مال کی ذاتی طور پر مالک ہوتی ہے۔ اس میں اس کے شوہر کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا شوہر کا اپنی بیوی کو حصہ لانے کے لیے کہنا اور اس سے جھگڑنا یہ سب مردانہ شان کے خلاف اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر بیوی کو حصہ مل جائے تو وہ اسے جائز کاموں میں کہیں بھی خرچ کرسکتی ہے۔ اور شوہر کو بھی دے سکتی ہے۔ لیکن شوہر کا زبردستی اس سے یہ مال لے لینا ناجائز اور حرام ہے، اس مال کا بیوی کو واپس کرنا ضروری ہے۔

اور اگر بیوی کے والد کی حیات میں ہی شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ اپنے میکہ سے حصہ لے کر آ۔ تو ایسا کہنا تو بڑی قبیح حرکت اور بے غیرتی کی بات ہے جو شرعاً بھی جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ والد کے انتقال کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے مال میں بیٹی کا حصہ ہوتا ہے، زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا والد کی زندگی میں ان سے حصہ مانگنا درست نہیں ہے۔

عَنْ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ : لا يَحِلُّ مالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلّا بِطِيبِ نَفْسِهِ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ٢٨٨٥)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ۔ (شامی : ٤/٦١)

لایجوز التصرف في مال غیرہ  بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (شامي : ٦/۳۰۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 صفر المظفر 1444

1 تبصرہ: