اتوار، 18 ستمبر، 2022

وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا

سوال :

وضو کے بعد جو پانی ہاتھ اور چہرے پر ہوتا ہے اسکے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا یہ پانی مکروہ ہے؟ اس کا رومال وغیرہ سے پونچھ لینا کیسا ہے؟ کیا سردی گرمی کا الگ الگ حکم ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شہباز، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اعضاء وضو سے ٹپکنے والا پانی پاک ہے، نجس یا مکروہ نہیں، اس پر سب کا اتفاق ہے۔ البتہ وضو کے بعد اعضاء کو پونچھنے کے سلسلے میں دونوں روایتیں ملتی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بعد اعضاء وضو کا پونچھنا اور نہ پونچھنا دونوں ثابت ہے۔ لہٰذا اپنے مزاج اور موسم کے مطابق عمل کی گنجائش ہے، اعضاء وضو کا پونچھنا اور نہ پونچھنا فرض، واجب یا مسنون کچھ بھی نہیں ہے۔ البتہ فقہاء نے وضو کے بعد اعضاء وضو کے پونچھنے کو مستحب لکھا ہے، لیکن پونچھنے میں مبالغہ نہ کیا جائے تاکہ وضو کا اثر باقی رہے۔ نیز سردی گرمی کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔

عَنْ أَبِي بَکْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ أَنْ مَکَانَکُمْ ثُمَّ جَائَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ فَصَلَّی بِهِمْ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٣٣)

مَا يُصِيبُ مِنْدِيلَ الْمُتَوَضِّئِ وَثِيَابَهُ عَفْوٌ اتِّفَاقًا وَإِنْ كَثُرَ (وَهُوَ طَاهِرٌ)۔ (شامی : ١/٢٠٠)

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِرْقَةٌ يُنَشِّفُ بِهَا بَعْدَ الْوُضُوءِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٥٣)

عَنْ كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ قَالَتْ : وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَبَّ عَلَى فَرْجِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ الْمِنْدِيلَ فَلَمْ يَأْخُذْهُ، وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ عَنْ جَسَدِهِ. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ : كَانُوا لَا يَرَوْنَ بِالْمِنْدِيلِ بَأْسًا، وَلَكِنْ كَانُوا يَكْرَهُونَ الْعَادَةَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٤٥)

وَالْمَنْقُولُ فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ وَغَيْرِهَا أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِالتَّمَسُّحِ بِالْمِنْدِيلِ لِلْمُتَوَضِّئِ وَالْمُغْتَسِلِ إلَّا أَنَّهُ يَنْبَغِي أَنْ لَا يُبَالِغَ وَيَسْتَقْصِيَ فَيَبْقَى أَثَرُ الْوُضُوءِ عَلَى أَعْضَائِهِ۔ (البحر الرائق : ١/٥٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 صفر المظفر 1444

1 تبصرہ: