شہد کے پیالے میں بال والے واقعہ کی تحقیق

سوال :

محترم مفتی صاحب امید ہے خریت سے ہوں گے ۔ ایک ويڈیو سوشل میڈیا پر بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔ اُس ویڈیو میں ایک صاحب واقعہ بیان کر رہے ہیں جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیھم اجمعین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گھر تشریف فرما ہیں۔ حضرت علی مہمانان معظم کو ایک سفید برتن میں شہد پیش کرتے ہیں، جس میں ایک باریک سا بال ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ہر کوئی اُس برتن کی سفیدی، شہد اور بال پر اپنے خیالات پیش کرتا ہے، حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی گفتگو میں شامل ہوتے ہیں۔ واقعہ کے آخر میں اللہ رب العزت وحی کے ذریعے فرمانِ مبارکہ نازل فرماتے ہیں۔
وہ طویل واقعہ اختصار کے ساتھ سوال میں لکھا گیا ہے۔محترم مفتی صاحب اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے کیوں کہ لوگ بہت اہتمام کے ساتھ اسے ارسال کر رہے ہیں۔
(المستفتی : حافظ مجتبی، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مکمل درج ذیل تفصیلات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔

ایک  مرتبہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی، یہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت علی کے مکان میں تشریف لے گئے، تو اس مبارک مجلس میں سرور کونین حضور اقدس ﷺ اور چاروں خلفاء راشدین موجود ہیں، حضرت علی اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمۃ الزہراء ان معزز مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے کے لئے ان کے پاس جو سب سے بہترین چیز تھی وہ پیش کی، وہ ایک شہد کا پیالہ تھا، وہ خوبصورت اور چمکدار تھا، اتفاق سے شہد کے پیالے میں ایک بال گر گیا، حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک میں جب وہ پیالہ آیا تو آپ نے ان حضرات کے سامنے وہ پیالہ پیش فرمایا، اور ارشاد فرمایا: دیکھو، خوبصورت پیالہ ہے، اس میں شیریں شہد ہے، اس میں ایک بال پڑا ہوا ہے،  ہر ایک اپنی اپنی طبیعت اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس پیالہ اور بال کے متعلق اپنی رائے پیش کرے:

1) حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے نزدیک مومن کا دل طشت سے زیادہ روشن اور چمکدار ہے، اور اس کے دل میں جو ایمان ہے وہ شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن ایمان کو موت تک حفاظت کر کے لے جانا بال سے زیادہ باریک ہے۔

2) حضرت عمر فاروق  کے سامنے جب یہ پیالہ آیا تو حضرت عمر نے فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ! حکومت اس طشت سے زیادہ روشن اور چمکدار ہے، حکمرانی کرنا یہ شہد سے زیادہ شیریں ہے،  لیکن حکومت میں عدل وانصاف کرنا یہ بال سے زیادہ باریک ہے۔

3) حضرت عثمان غنی rنے فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ!میرے نزدیک علم دین طشت سے زیادہ روشن ہے، اور علم دین سیکھنا شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن اس پر عمل کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔

4) حضرت علی نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ! میرے نزدیک معزز مہمان طشت سے زیادہ روشن ہے، اور ان کی مہمان نوازی شہد سے زیادہ شیریں ہے، اور ان کو خوش کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔

5) حضرت فاطمہ  فرماتی ہیں: عورت کے حق میں حیاء اس طشت سے زیادہ روشن اور چمکدار ہے، اور اس کے چہرے پر پردہ شہد سے زیادہ شیریں ہے، اور ایک غیر مرد پر نگاہ  نہ پڑے اور غیر مرد  کی نگاہ اس پر نہ پڑے یہ بال سے بھی زیادہ باریک ہے۔

6) حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: اللہ کی معرفت طشت سے زیادہ روشن ہے، اس کے بعد فرمایا: معرفت الہی  سے آگاہ ہوجانا اور معرفت الہی حاصل ہوجانا  شہد سے زیادہ شیریں ہے، اور اللہ کی معرفت کے بعد اس پر عمل کرنا یہ بال سے زیادہ باریک ہے۔

7) حضرت جبریل نے فرمایا: میرے نزدیک راہ خدا یعنی اللہ کی راہ طشت سے زیادہ روشن ہے، اور اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال قربان کرنا، جہاد کرنا شہد سے زیادہ شیریں ہے، اور اس کے بعد فرمایا:  اس  پر استقامت یعنی موت تک راہ خدا میں چلتے رہنا بال سے زیادہ باریک ہے۔

8) اللہ تعالی فرماتے ہیں : جنت اس طشت سے زیادہ روشن ہے، اور جنت کی نعمتیں شہد سے زیادہ شیریں ہیں، لیکن جنت تک پہنچنے کے لئے پل صراط سے گزرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ یہ واقعہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں صحیح، ضعیف یا موضوع (من گھڑت روایات) میں نہیں مل سکا۔ البتہ تفسیر روح البیان میں اسی طرز کا ایک واقعہ مختصر انداز میں بغیر سند کے مذکور ہے، لیکن اس واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر نہیں ہے۔ وہ واقعہ درج ذیل ہے :

لطیف حکایات میں سے ہے کہ حضرت علی بیمار ہوئے، تو حضرت ابوبکر نے حضرت عمر اور حضرت عثمان سے فرمایا : ہمیں ان کی عیادت کے لئے جانا چاہئے، پھر یہ حضرات حضرت علی کے دروازے پر پہنچے، حضرت علی نے مرض سے کچھ افاقہ محسوس کیا، وہ بہت خوش ہوئے، ان کی سخاوت کا دریا موجزن ہوا، چنانچہ وہ اپنے گھر میں گئے، تو ایک برتن میں موجود شہد کے علاوہ کچھ نہ ملا، جو ایک ہی فرد کے لئے کافی تھا، اور برتن سفید وچمکدار تھا، حضرت ابوبکر نے فرمایا: گفتگو سے پہلے کھانا مناسب نہیں ہے، سب نے کہا : آپ ہم میں زیادہ معزز و مکرم ہیں، آپ ہمارے سردار ہیں، پہلے آپ فرمائیں، حضرت ابوبکر نے فرمایا :

دین اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے، اور اللہ کا ذکر شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور شریعت پر چلنا بال سے زیادہ باریک ہے، پھر حضرت عمر نے فرمایا : جنت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے، اور اس کی نعمتیں شہد سے زیادہ میٹھی ہیں اور پل صراط بال سے زیادہ باریک ہے، پھر حضرت عثمان نے فرمایا : قرآن اس پیالے سے زیادہ پر نور ہے، اور اس کی تلاوت شہد سے زیادہ میٹھی ہے اور اس کی تفسیر بال سے زیادہ باریک ہے، پھر حضرت علی نے فرمایا : مہمان اس پیالے سے زیادہ پر نور ہے، اور اس کی گفتگو شہد سے زیادہ میٹھی ہے، اور اس کا دل بال سے زیادہ  باریک ہے۔ (روح البیان)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مذکورہ واقعہ تفسیر روح البیان میں آیت {لَوْ یَشَاءُ اللہ لَهدَی النَّاسَ جَمِیعًا} [سورة الرعد] کے ذیل میں قدرے تغیر کے ساتھ مذکور ہے، لیکن وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت کا ذکر نہیں ہے، ممکن ہے کہ کسی دوسری کتاب میں مزید تفصیل موجود ہو، البتہ کسی صحیح مستند کتاب میں یہ واقعہ بسند ذکر نہیں کیا گیا، لہٰذا ایسے واقعات بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیئے کہ رسول اللہ کی جانب غلط بات منسوب کرنا بڑا گناہ اور ہلاکت کا سبب ہے۔ 
روح البیان میں ہے : ومن الحکایات اللطیفة أن علیاً رضی الله عنه مرض، فقال أبوبکر رضی الله عنه لعمر وعثمان رضی الله عنهما: إن علیاً قد مرض فعلینا العیادة․․․ فدخل بیته فلم یجد شیئاً سوی عسل یکفی لواحد في طست وهو أبیض وأنور وفیه شعر أسود... فقال أبوبکر رضی الله عنه: الدین أنور من الطست وذکر الله تعالٰی أحلی من العسل، والشریعة أدق من الشعر، فقال عمر رضی الله عنه: الجنة أنور من الطست ونعیمها أحلی من العسل والصراط أدق من الشعر․ فقال عثمان رضی الله عنه: القرآن أنور من الطست وقراءة القرآن أحلی من العسل وتفسیرہ أدق من الشعر۔ (روح البیان: الرعد)۔ (رقم الفتوی : 65482)

خلاصہ یہ کہ یہ دونوں واقعات معتبر نہیں ہیں، لہٰذا ان دونوں کے بیان کرنے اور اس کی ویڈیوز شیئر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 محرم الحرام 1447

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ