اشاعتیں

مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی      (امام وخطیب مسجد کوہ نور) قارئین کرام ! کل عشاء کے بعد علماء کرام کے ایک واٹس اپ گروپ میں مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند) کے بیان کی ایک کلپ سننے میں آئی جس میں آپ فرما رہے ہیں کہ " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ (نکاح کے وقت) ان کی عمر چھ سال تھی، ایک راوی ہیں ہشام ابن عروہ صرف ان کی روایت میں یہ بات آتی ہے۔ باقی جتنے راوی وہ سب یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمر سولہ سال تھی، عربی میں سولہ کو سِتَّ عشر کہتے ہیں، کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ راوی بیان کرے ایک آدھ لفظ چھوٹ جاتا ہے، سِتَّ عشر میں سے عشر کا لفظ رہ گیا۔ سِتَّ باقی رہ گیا، جس کی وجہ سے لوگ کہنے لگ چھ سال کی عمر۔" مفتی اسماعیل صاحب کا یہ بیان سنتے ہی مجھے حیرت کا بڑا جھٹکا لگا کہ اتنی سنگین اور بڑی غلطی آپ کیسے کرسکتے ہیں؟ چنانچہ میں نے ان کا مکمل بیان جو آپ نے اس سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر لشکر والی عیدگاہ پر ہزاروں کے مجمع میں کیا تھا دیکھا تاکہ سمجھ لوں کہ آگے آپ کوئی مزید وضاحت تو نہیں کررہے ہیں۔ لیکن بیان میں بھی اس کی کوئی و...

بھینس کی قربانی کا حکم

سوال : محترم مفتی صاحب ! بھینس کی قربانی نہیں ہوتی، عیدالاضحٰی کے موقع پر ایسی تحریریں سوشل میڈیا پر چلتی رہتی ہیں، براہ کرم دلائل کی روشنی میں بیان فرمائیں کہ بھینس کی قربانی درست ہے یا نہیں؟ اور عنداللہ ماجور ہوں۔ (المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں) ------------------------------------  بسم اللہ الرحمن الرحیم  الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں عرب میں بھینس نہیں پائی جاتی تھی، اس لیے بھینس کی قربانی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھینس کی قربانی سے متعلق صراحتاً کوئی حکم دیا ہے۔ اس بات کو بنیاد بنا کر غیرمقلدین میں سے بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں جاموس یعنی بھینس کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : أُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ‘‘ ترجمہ : حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی۔ (المائدہ، آیت : ۱) اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، ب...

اختلاف کی بنیاد پر بازو گلی میں مسجد کی تعمیر

  شہر کے ارباب حل وعقد توجہ فرمائیں ✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی       (امام وخطیب مسجد کوہ نور ) قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں دور دور تک مسجدوں میناروں کے شہر سے مشہور ومعروف ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ہم بلاضرورت مسجدیں تعمیر کرتے چلے جائیں۔ ابھی چند دن پہلے مجھے ایک فون آیا کہ فلاں محلے میں ایک مسجد تعمیر کرنے کے لیے جگہ خریدنا ہے اس کے لیے آپ کی کوہ نور مسجد میں جمعہ میں چندہ کرنے کے لیے وقت چاہیے، میں نے ان سے کہا کہ وہاں تو فلاں مسجد تو کافی کشادہ ہے اور اب اس کے بازو گلی میں ہی مسجد تعمیر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی، تو انہوں نے کہا کہ وہاں کے جو ذمہ دار ہیں وہ اپنی چلاتے ہیں اور وہاں مکتب نہیں ہے اور جماعت کا کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ میں ان سے کہا کہ اس کا یہ حل نہیں ہے کہ اس کے بازو گلی میں دوسری مسجد ہی تعمیر کرلی جائے، اس کا کوئی دوسرا حل تلاش کیا جاسکتا ہے جو ذمہ دار اپنی چلاتے ہیں اہلیان محلہ ان سے باز پرس کریں اور شہر کے اکابر مفتیان کرام کے مشورہ سے مسئلہ حل کریں۔ لیکن انہوں نے اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا اور بات ختم ہوگئی۔ آپ حضرا...

قربانی کرنے کے بجائے فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرنا

سوال :  مکرمی جناب مفتی صاحب  ایک مسئلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن صاحب نصاب مسلمانوں پر قربانی واجب ہے ان کے لئے حکم شرع کیا ہے؟ قربانی کے ایام میں قربانی ہی کرکے فریضہ ادا کرنا ضروری ہے یا پھر قربانی کی رقم سے غریب وضرورت مند افراد کی مالی امداد کرنے سے قربانی ساقط ہوجائے گی؟ چونکہ ان دنوں بہت سے بھولے بھالے صاحب نصاب مسلمانوں کو کچھ لوک یہ کہہ کر قربانی سے روک رہے ہیں کہ قربانی کی رقم فلسطین کے مظلوم ونادار اور غریب مسلمانوں کی امداد کے لئے بھیج دیں اس لئے کہ اس وقت وہ زیادہ ضرورت مند ہیں۔ اسی طرح بعض علاقوں میں جہاں مخصوص جانوروں کی قربانی پر پابندیوں کے سبب رنگین جانوروں کی قربانی مشکل ہورہی ہے تو کیا ان لوگوں کے کالے جانور کی قربانی کی بجائے دور دراز کے علاقوں میں یا اجتماعی قربانی کے مراکز ومدارس میں قربانی کی رقم دے کر مطمئن ہوجانے کی اجازت ہوگی؟ دونوں ہی مسائل کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جواب دینے کی زحمت گوارہ فرمائیں نوازش ہوگی۔ (المستفتی : محمد طلحہ، جلگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التو...

میت کو نہلانے والے صابن سے متعلق ایک عقیدہ

سوال :  محترم مفتی صاحب ! ایسا سننے میں آتا ہے کہ مُردے کو جس صابن سے نہلایا جاتا ہے اس بچے ہوئے صابن کو استعمال کرنے سے جلد چکنی ہو جاتی ہے پھنسی پھوڑے نہیں نکلتے، رنگت صاف رہتی ہے۔ کیا اس بارے میں شرعی طور پر کوئی بات بتائی گئی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : میت کو جس صابن سے غسل دیا جاتا ہے اس کے بچے ہوئے حصہ کا استعمال کرنا شرعاً جائز ہے اور درست ہے، اسے نقصان دہ یا منحوس سمجھنا بدعقیدگی ہے، لیکن اس کے برعکس اسے اس طرح مفید کہنا اور سمجھنا کہ اس کے استعمال سے جلد چکنی ہو جاتی ہے، پھنسی پھوڑے نہیں نکلتے اور رنگت صاف رہتی ہے، بے بنیاد بات ہے۔ نہ تو قرآن وحدیث میں اس طرح کی بات ملتی ہے اور نہ طبی طور پر ایسا کچھ کہا گیا ہے، یہ ایک عجیب وغریب اور احمقانہ عقیدہ ہے، جس کا ترک کرنا ضروری ہے۔ قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹) سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ ...

ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں حاجیوں کے لیے بال ناخن کاٹنا

سوال :  مفتی صاحب جو لوگ حج پر ہیں ان کے لیے ذو الحجہ کا چاند دکھنے سے  پہلے بال ناخن کاٹنا بہتر ہے، یا جب 8 تاریخ کو حج کا احرام باندھنے سے پہلے بال ناخن کا کاٹنا بہتر ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : محمد رضوان، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں ذو الحجہ کے پہلے عشرہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنے کا استحبابی حکم صرف ان غیر حاجیوں کے لیے جو قربانی کرنے والے ہوں، حاجیوں کے لیے یہ حکم نہیں ہے، ان کے لیے ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال ناخن کاٹنا بلا کراہت درست ہے، اس لیے کہ حاجی متمتع جب ان دنوں حج سے پہلے عمرہ ادا کرے گا تو وہ بلاشبہ حلق یا قصر کرے گا۔ لہٰذا حجاج کے لیے ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں حج کا احرام باندھنے سے پہلے کبھی بھی بال اور ناخن کاٹنا بلا تردد جائز ہے۔  عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ " (ترمذی، رقم : 1523) عَنْ عَبْدِاﷲِ بْن...

جھینگا بومل کھانے کا شرعی حکم

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے ہمارے یہاں جھینگا، بومل جس کی چٹنی بنائی جاتی ہے اس کا کھانا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔ (المستفتی : زبیر احمد، مالیگاؤں) ------------------------------------  بسم اللہ الرحمن الرحیم  الجواب وباللہ التوفيق : جھینگا جس کی ہمارے یہاں عموماً چٹنی بنائی جاتی ہے، یہ انتہائی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ہوتی ہیں، جسے کاٹ کر اس کی آلائش نکالنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا اسے سکھاکر اس کا کھانا بلاکراہت درست ہے۔  بومل یہ بھی مچھلی ہی ہوتی ہے، جسے بملا یا بمبل بھی کہا جاتا ہے، یہ دو طرح کا ہوتا ہے، ایک گیلا اور دوسرا سوکھا، گیلا بومل تو اس کی آلائش نکال کر ہی بنایا جاتا ہے، لہٰذا اس کے کھانے میں بھی شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور سوکھا  اگر اتنا بڑا ہو کہ اس کہ آلائش آسانی سے نکالی جاسکتی ہے تو بہتر ہے کہ اس کی آلائش نکال کر اسے سکھایا جائے، اگر آلائش نکالے بغیر سکھایا گیا ہے تو اِس بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہے، اور بہت سے علماء کے نزدیک مکروہ بھی نہیں ہے۔ نوٹ :  ایک جھینگا وہ ہوتا ہے جسے پراؤنس کہاج...