ابیھا نام رکھنے کا حکم
سوال : مفتی صاحب! بہت سے لوگ بچیوں کا نام "ابیھا" رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ابیھا" حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا لقب ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : حافظ دانش، مالیگاؤں) ----------------------------------------------- بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات میں ملتا ہے کہ خاتون جنت سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی کنیت "اُمِّ اَبِیْھَا" یعنی "اپنے والد کی ماں" تھا۔ لہٰذا اگر کسی کو اپنی بچی کا نام رکھنا ہے تو "اُمِّ اَبِیْھَا" رکھنا چاہیے۔ صرف "اَبیھا" کا مطلب ہوگا "اس کا باپ"۔ لہٰذا صرف ابیھا نام رکھنا حماقت اور بے وقوفی ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔ وذكر عَنْ جعفر بْن مُحَمَّد، قَالَ: كانت كنية فاطمة بنت رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أم أبيها"۔(الاستيعاب في معرفة الأصحاب : ٤/١٨٩٩)فقط واللہ تعالٰی اعلم محمد عامر عثمانی ملی 11 جمادی الآخر 1447