مذاق میں کسی کو یہودی وغیرہ کہنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو مذاق میں یہودی کہہ دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا مسلمان کو یہودی کہنے والا خود اسلام سے خارج ہوجائے گا؟ کیا اس کو تجدید ایمان ونکاح کرنا پڑے گا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
-----------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں کسی مسلمان کو یہودی یا کافر وغیرہ کہہ دینا سخت ناجائز اور حرام ہے، لیکن اس کی وجہ سے کہنے والا خود کافر نہیں ہوجاتا۔

اس سلسلے میں بطور دلیل ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

اس حدیث شریف کے سلسلے میں امام نووی رحمہ اللہ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ماحاصل یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو بعض علماء نے مشکلات میں شمار کیا ہے کیونکہ اس ارشاد گرامی کا جو بظاہر مفہوم ہے اس کو حقیقی مراد قرار نہیں دیا جاسکتا بایں وجہ کہ اہل حق کا مسلک یہ ہے کہ کوئی مسلمان خواہ کتناہی بڑا گناہ کیوں نہ کرے جیسے قتل اور زنا وغیرہ اور خواہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہنے کا ہی مرتکب کیوں نہ ہو بشرطیکہ وہ دین اسلام کے باطل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو اس کی طرف کفر کی نسبت نہ کی جائے جب کہ مذکورہ حدیث کے ظاہری مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور حقیقت میں کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس ارشاد گرامی کی مختلف تاویلیں کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا محمول وہ شخص ہے جو نہ صرف یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کہے بلکہ کسی مسلمان کی طرف کفر کی نسبت کرنے کو حلال و جائز سمجھے اس صورت میں "باء بھا" کے معنی یہ ہوں گے کہ کفر خود اس شخص کی طرف تکفیر کی معصیت لوٹتی ہے یعنی جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے گا تو اس کا یہ کہنا اس مسلمان کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ البتہ مسلمان کو کافر کہنے کے گناہ میں خود مبتلا ہوگا۔

شیخ الہند محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقد باء بہا احدہما سے یہ مراد نہیں ہے کہ اگر وہ واقع میں کافر نہیں تو یہ کافر کہنے والا کافر ہو جائے گا بلکہ اس کا گناہ اس کے ذمہ پر ہوگا جیساکہ اگر ایک پتھر ہم زور سے ماریں پس اگر شے مضروب علیہ نرم ہوگی تو پتھر اس میں اثر کرکے داخل ہوجائے گا اور اگر بہت سخت ہوئی تو وہاں سے اچٹ کر ضارب کے اوپر پڑے گا لیکن ظاہر ہے کہ اس قدر زور سے نہ لگے گا جیسا کہ مضروب علیہ پر پڑا تھا۔ (الورد الشذی علی جامع الترمذی : ٢٦٩)

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
کسی مسلمان کو کافر کہنا سخت گناہ ہے اور جو شخص ایسا کہے وہ فاسق ہے، لیکن اس غلطی کی بناء پر اسے مطلقاً کافر بھی نہیں کہا جاسکتا، تاوقتیکہ اس کے دوسرے بنیادی عقائد خراب نہ ہوں۔ البتہ خطرہ کفر سے خالی نہیں۔ (فتاوی عثمانی : ١/٢٨)

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے :
واقعی مسلمان کو کافر کہنا جائز نہیں، اگر وہ شخص جس کو کافر کہا جارہا ہے کافر نہیں ہے تو کافر کہنے کا وبال خود کہنے والے پر لوٹتا ہے، البتہ محض اس قول کی وجہ سے قائل پر تکفیر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ (رقم الفتوی : 25524)

دارالعلوم دیوبند سمیت دیگر فتاویٰ میں یہ بات موجود ہے کہ قائل پر تکفیر کا حکم نہیں لگایا جائے گا یعنی کہنے والے پر کفر کا حکم نہیں لگے گا، لہٰذا اس پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضروری نہیں ہے، البتہ توبہ و استغفار اور آئندہ اس سے بچنا بہرحال لازم ہے۔


عن ابن عمر رضي الله عنهُما، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "إذَا قالَ الرَّجُلُ لأخِيهِ : يا كافِرٌ! فَقَدْ باءَ بِها أحَدُهُما، فإن كانَ كما قال، وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦١٠٣)

وَقَالَ النَّوَوِيُّ: هَذَا الْحَدِيثُ مِمَّا عَدَّهُ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ مِنَ الْمُشْكَلَاتِ مِنْ حَيْثُ أَنَّ ظَاهِرَهُ غَيْرُ مُرَادٍ، وَذَلِكَ أَنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ الْحَقِّ أَنَّهُ لَا يُكَفَّرُ الْمُسْلِمُ بِالْمَعَاصِي كَالْقَتْلِ وَالزِّنَا، وَقَوْلِهِ لِأَخِيهِ: كَافِرُ مِنْ غَيْرِ اعْتِقَادِ بُطْلَانِ دِينِ الْإِسْلَامِ، وَإِذَا تَقَرَّرَ مَا ذَكَرْنَاهُ فَقِيلَ فِي تَأْوِيلِ الْحَدِيثِ أَوْجُهٌ أَحَدُهَا : أَنَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى الْمُسْتَحِلِّ لِذَلِكَ، فَعَلَى هَذَا مَعْنَى بَاءِ بِهَا أَيْ: بِكَلِمَةِ الْكُفْرِ أَيْ: رَجَعَ عَلَيْهِ الْكُفْرُ، وَثَانِيهَا: أَنَّ مَعْنَاهُ رَجَعَتْ عَلَيْهِ نَقِيضَتُهُ وَمَعْصِيَةُ تَكْفِيرِهِ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٧/٣٠٢٧)

وَلَوْ قَالَ لِمُسْلِمٍ أَجْنَبِيٍّ: يَا كَافِرُ، أَوْ لِأَجْنَبِيَّةٍ يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ يَقُلْ الْمُخَاطَبُ شَيْئًا، أَوْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ:  يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ تَقُلْ الْمَرْأَةُ شَيْئًا، أَوْ قَالَتْ الْمَرْأَةُ لِزَوْجِهَا: يَا كَافِرُ وَلَمْ يَقُلْ الزَّوْجُ شَيْئًا كَانَ الْفَقِيهُ أَبُو بَكْرٍ الْأَعْمَشُ الْبَلْخِيّ يَقُولُ: يَكْفُرُ هَذَا الْقَائِلُ،  وَقَالَ غَيْرُهُ مِنْ مَشَايِخِ بَلْخٍ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى: لَايَكْفُرُ،  وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى فِي جِنْسِ هَذِهِ الْمَسَائِلِ أَنَّ الْقَائِلَ بِمِثْلِ هَذِهِ الْمَقَالَاتِ إنْ كَانَ أَرَادَ الشَّتْمَ وَلَايَعْتَقِدُهُ كَافِرًا لَايَكْفُرُ، وَإِنْ كَانَ يَعْتَقِدُهُ كَافِرًا فَخَاطَبَهُ  بِهَذَا بِنَاءً عَلَى اعْتِقَادِهِ أَنَّهُ كَافِرٌ يَكْفُرُ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٨)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
01 رجب المرجب 1447

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مستقیم بھائی آپ سے یہ امید نہ تھی