بروز حشر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کی مدت؟
سوال :
محترم مفتی صاحب! قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم طويل سجدہ فرمائیں گے اس کے بعد آپ شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ کیا یہ حدیث ہے؟ اگر حدیث ہے تو اس سجدہ کی طوالت کیا ہوگی؟
(المستفتی : فضال احمد ملّی، مالیگاؤں)
------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے وہ بخاری ومسلم سمیت متعدد کتب احادیث میں موجود ہے جو مکمل درج ذیل ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک دعوت میں تھے آپ ﷺ کے سامنے دست پیش کیا گیا اور آپ ﷺ کو دست کا گوشت مرغوب تھا تو آپ ﷺ اس میں سے نوچ نوچ کر کھانے لگے اور فرمایا کہ میں قیامت کے دن تمام آدمیوں کا سردار ہوں گا کیا تم جانتے ہو کس لئے؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ہموار میدان میں جمع کرے گا اس طرح کہ دیکھنے والا ان سب کو دیکھ سکے اور پکارنے والا انہیں اپنی آواز سنا سکے اور آفتاب ان کے (بہت) قریب آجائے گا پس بعض آدمی کہیں گے کہ تم دیکھتے نہیں کہ تمہاری کیا حالت ہو رہی ہے اور تمہیں کتنی مشقت پہنچ رہی ہے یا تم ایسے شخص کو نہیں دیکھو گے جو اللہ سے تمہاری سفارش کرے دوسرے لوگ کہیں گے اپنے باپ آدم کے پاس چلو، تو وہ ان کے پاس آکر کہیں گے، کہ آدم آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کر کے اپنی روح آپ کے اندر پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں ٹھہرایا کیا اپنے رب سے آپ ہماری سفارش نہیں کرینگے؟ کیا آپ ہماری حالت اور ہماری مشقت کا مشاہدہ نہیں فرما رہے وہ فرمائیں گے کہ آج اللہ اتنا غضب ناک ہے کہ نہ اس سے پہلے ایسا غضبناک ہوا نہ آئندہ ہوگا اور اس نے مجھے درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا مگر میں نے نافرمانی کی مجھے تو خود اپنی جان کی پڑی ہے لہذا کسی دوسرے کے پاس جاؤ (ہاں) نوح کے پاس چلے جاؤ تو وہ نوح کے پاس آکر کہیں گے کہ اے نوح آپ دنیا میں سب سے پہلے (تشریعی) رسول ہیں اور اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کا خطاب عطا فرمایا ہے کیا آپ ہماری حالت کا معائنہ نہیں فرما رہے کیا آپ اپنے رب سے ہماری سفارش نہیں کریں گے وہ فرمائیں گے کہ آج اللہ اتنا غضبناک ہے کہ اس سے قبل ایسا غضبناک نہ ہوا نہ آئندہ ہوگا مجھے تو خود اپنی فکر ہے (یہاں تک کہ ان سے کہا جائے گا کہ) رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ تو وہ میرے پاس آئیں گے میں عرش کے نیچے سجدہ میں گر پڑوں گا تو مجھ سے کہا جائے گا اے ہمارے محبوب اپنا سر اٹھائیے اور سفارش کیجئے آپ ﷺ کی سفارش مقبول ہوگی اور مانگے گے آپ ﷺ کو دیا جائے گا۔ (بخاری)
اس مضمون کی جتنی بھی روایات ہیں، ان میں کہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کی کسی مخصوص مدت کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا بعض حضرات اس سجدہ کی مدت پچاس ہزار سال یا پانچ سو سال وغیرہ بیان کرتے ہیں وہ درست نہیں ہے، انہیں اس سے باز رہنا چاہیے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً وَقَالَ أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُونَ بِمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمْ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمْ الدَّاعِي وَتَدْنُو مِنْهُمْ الشَّمْسُ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ أَلَا تَرَوْنَ إِلَی مَا أَنْتُمْ فِيهِ إِلَی مَا بَلَغَکُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ إِلَی مَنْ يَشْفَعُ لَکُمْ إِلَی رَبِّکُمْ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ أَبُوکُمْ آدَمُ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُونَ يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَکَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيکَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِکَةَ فَسَجَدُوا لَکَ وَأَسْکَنَکَ الْجَنَّةَ أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيهِ وَمَا بَلَغَنَا فَيَقُولُ رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَنَهَانِي عَنْ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَی نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَی أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاکَ اللَّهُ عَبْدًا شَکُورًا أَمَا تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَی إِلَی مَا بَلَغَنَا أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَی رَبِّکَ فَيَقُولُ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ نَفْسِي نَفْسِي ائْتُوا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ لَا أَحْفَظُ سَائِرَهُ۔ (بخاری، رقم : ٣٣٤٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 رجب المرجب 1447
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں