سوال :
بچوں کو حکومت کی جانب سے جو پولیو ڈوز پلایا جاتاہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ پلا سکتے ہیں یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ کا واضح اور مسلّم اصول ہے کہ جب تک کسی دوا یا کھانے، پینے وغیرہ کی اشیاء میں کسی ناپاک یا حرام شئے کے ملے ہونے کا یقینی علم نہ ہو تب تک اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ پولیو ڈوز کا بھی حکم یہی ہے کہ اس میں کسی ناپاک شئے کی آمیزش کا یقینی علم نہیں ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال اصلاً جائز ہے۔ ذیل میں ہم عالم اسلام متعدد مؤقر اور معتبر اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں مزید تشفی ہوجائے۔
دارالعلوم (وقف) دیوبند کا فتوی ہے :
پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں۔ (رقم الفتوی : 1503)
دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے :
پولیو کے قطروں کے متعلق مسلمان اطباء حضرات یہی کہتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پولیو سے بچاؤ کے لئے پلائے جاتے ہیں اور شرعی نقطہ نگاہ سے کسی بھی حلال دوا یا غذا کے ذریعہ بیماری سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شرعاً فی نفسہ جائز ہے، لہٰذا پولیو کے قطرے میں جب تک کسی مستند ذریعہ سے کسی ناجائز بات یا ناپاک چیز کی آمیزش کا علم یا ظن غالب نہ ہو اس وقت تک اسکو پلانے کا اصولی حکم یہی ہے کہ شرعاً فی نفسہ جائز ہے۔ نیز چونکہ پولیو کے قطرے پلانا شرعاً فرض یا واجب یا قانوناً لازم نہیں اس لئے کوئی احتیاط پر عمل کرتے ہوئے نہ پلائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 86/1938)
جامعۃ الرشید، کراچی کا فتوی ہے :
پولیو کے قطرے عرصہ دراز سے پلائے جا رہے ہیں، لیکن تا حال اس کے کوئی مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ نیز اس وقت عالم ِ اسلام کے ممتاز علماءکرام اور مستند طبی ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ پولیو کے قطروں میں کوئی مضرِصحت یا خلافِ شریعت چیز نہیں پائی جاتی، اس لئے یہ قطرے پلانا جائز ہے۔ (رقم الفتوی : 62585/57)
(لِانْقِلَابِ الْعَيْنِ) فَإِذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُكْمُ الْمِلْحِ. وَنَظِيرُهُ فِي الشَّرْعِ النُّطْفَةُ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ عَلَقَةً وَهِيَ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ مُضْغَةً فَتَطْهُرُ، وَالْعَصِيرُ طَاهِرٌ فَيَصِيرُ خَمْرًا فَيَنْجُسُ وَيَصِيرُ خَلًّا فَيَطْهُرُ، فَعَرَفْنَا أَنَّ اسْتِحَالَةَ الْعَيْنِ تَسْتَتْبِعُ زَوَالَ الْوَصْفِ الْمُرَتَّبِ عَلَيْهَا۔ (شامی : ١/٣٢٧)
الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)
مَعْنَى هَذِهِ الْقَاعِدَةِ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ بِالشَّكِّ، وَمَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ إِلاَّ بِيَقِينٍ، وَدَلِيلُهَا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَل عَلَيْهِ، أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لاَ؟ فَلاَ يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قَال رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى أَثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٥/٥٧٩)
الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الاول 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں