فرعون کا مرتے وقت کلمہ پڑھنا؟

سوال :

مفتی صاحب ! کیا ایسی کوئی حدیث ہے جس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام ہمارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرعون کو عین اس کے دریا میں غرق ہونے کے وقت مار رہے تھے اور اس کے منہ میں مٹی ڈال رہے تھے کیونکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اس بات کا ڈر ہوا کہ اگر اس وقت فرعون لا الہ الا اللہ کہہ دے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیں گے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : سعد عمار، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں یہ مضمون نقل کیا گیا ہے کہ دریا میں غرق ہوتے وقت فرعون نے کلمہ پڑھنا چاہا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس کے منہ میں کیچڑ بھر دی۔

قرآن کریم میں ہے :
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
ترجمہ : اور ہم نے بنو اسرائیل کو سمندر پار کرادیا، تو فرعون اور اس کے لشکر نے بھی ظلم اور زیادتی کی نیت سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے کا انجام اس کے سر پر آپہنچا تو کہنے لگا : میں مان گیا کہ جس خدا پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں بھی فرمانبرداروں میں شامل ہوتا ہوں۔ (جواب دیا گیا کہ) اب ایمان لاتا ہے ؟ حالانکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا، اور مسلسل فساد ہی مچاتا رہا۔ (سورۃ یونس، آیت : ٩٠-٩١)

مولانا ادریس کاندھلوی لکھتے ہیں :
ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ جب فرعون نے امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنواسرائیل کہا، اس وقت میرا حال عجیب تھا۔ کاش آپ مجھے اس وقت دیکھتے کہ میں سمندر سے کیچڑ لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونستا تھا کہ کہیں (کلمہ ایمان کی برکت سے) اس کو اللہ کی رحمت نہ پہنچ جائے (رواہ الترمذی) کیونکہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر سابق ہے، جبرئیل امین کو اندیشہ ہوا کہ اگر رحمت خداوندی سے اس وقت یہ عدو اللہ غرقابی سے بچ گیا تو پھر کفر کا جھنڈا بلند کرے گا۔ اس لیے اس کا غرق ہونا ہی بہتر ہے اور بعض روایات میں یہ لفظ آئے ہیں۔ مخافتہ ان تدرکہ رحمۃ اللہ فیغفرلہ۔ مجھے ڈر ہوا کہ اس کو اللہ کی رحمت پکڑ لے۔ اور اس کی مغفرت ہوجائے یعنی اس وقت غرق سے بچ جائے اور بچ کر راہ راست پر آجائے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے اور حسب قاعدہ شریعت الاسلام یھدم ما کان قبلہ ایمان لانے سے اس کے گناہوں کی مغفرت ہوجائے۔ جبریل امین کو معلوم تھا کہ ایسے وقت کا ایمان مقبول نہیں، مگر یہ بھی جانتے تھے کہ خدائے تعالیٰ قادر مطلق ہے بڑے سے بڑے مجرم کو معاف کرسکتا ہے۔ (معارف القرآن : ١٤٦٢)

مسند احمد میں ہے :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی ﷺ سے عرض کیا کاش! آپ نے مجھے اس وقت دیکھا ہوتا جب میں سمندر کی کالی مٹی لے کر فرعون کے منہ میں بھر رہا تھا۔

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہ درست ہے اور اس واقعہ کی حکمت، مصلحت اور حکم بھی اوپر بیان کردیا گیا ہے۔


عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ذَکَرَ أَحَدُهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَکَرَ أَنَّ جِبْرِيلَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَدُسُّ فِي فِي فِرْعَوْنَ الطِّينَ خَشْيَةَ أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَيَرْحَمَهُ اللَّهُ أَوْ خَشْيَةَ أَنْ يَرْحَمَهُ اللَّهُ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٣١٠٨) 

حَدَّثَنَا يُونُسُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ عَلِىِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا آخُذُ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ فَأَدُسُّهُ فِي فِي فِرْعَوْنَ۔ (مسند احمد، رقم : ٢٢٠٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 محرم الحرام 1447

تبصرے

  1. واہ مفتی صاحب ایسے ہی مختلف فیہ مسائل کو اجاگر کرتے رہیں ، اور عنداللہ ماجور ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ اللہ پاک آپ کوبہترین جزاء عطاءفرماۓ

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ