حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کے نور سے سوئی کا نظر آنا
سوال :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کنزالعمال میں ایک روایت مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت صفیہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا سے عاریت پر ایک سوئی لے رکھی تھی اس سے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا سیا کرتی تھی اندھیری رات میں وہ سوئی میرے ہاتھ سے گرگئی بہت تلاش کی نہیں ملی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو آپ کے چہرہ انور کے نور کی شعاؤں سے سوئی دکھائی دینے لگی میں نے ہنس کر سوئی اٹھالی۔
دیکھیۓ آپ کے حسن کا کیا عالم ہے کہ حسن حسی اور حسن مادی دونوں آپ میں جمع ہیں کہ آپ کا حسن و جمال تمام انسانوں کے حسن سے فائق ہے اور کسی کو ایسا حس عطا نہیں ہوا ہے جس کے حسن کے ذریعے سے تاریک رات میں چمک اور روشنی پیدا ہوجاتی ہو۔ (انوار ہدایت : ١١٦)
محترم مفتی عامر عثمانی صاحب اس حدیث کی تصدیق فرما دیجئے۔
(المستفتی : خالد مسیح اللہ، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کی ارسال کردہ روایت کو ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابو نعیم اصبھانی نے دلائل النبوۃ میں اور ابو العباس المقدسی نے التخریج میں ذکر کیا ہے، لیکن اس روایت کی سند کا مدار ’’مسعدۃ بن بکر الفرغانی‘‘ نامی راوی پر ہے، جس نے یہ روایت بطریق محمد بن احمد بن ابی عون نقل کی ہے، ائمہ جرح و تعدیل مثلاً حافظ ذہبی، حافظ ابن حجر، حافظ ابن عراق وغیرہ نے اس کی سند پر کلام کیا ہے اور اسے باطل و من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسعدۃ بن بکر کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر ہم اور ہمارے ماں باپ قربان، آپ ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے کامل واکمل ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کی شان بیان کرنے کے لیے من گھڑت روایات کا سہارا لیا جائے۔ اس لیے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ جس نے میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ لہٰذا اس واقعہ کا بیان کرنا اسے پھیلانا جائز نہیں ہے۔
أنبأنا مسعدة بن بكر الفرغاني بمرو، و أنا سالته فأملى علي بعد جهد، أنبأنا محمد بن أحمد بن أبي عون، أنبأنا عمار بن الحسن، أنبأنا سلمة بن الفضل بن عبدالله عن محمد بن إسحاق بن يسار عن يزيد بن رومان وصالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشة قالت: "استعرت من حفصة بنت رواحة إبرة كنت أخيط بها ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسقطت مني الإبرة فطلبتها، فلم أقدر عليها، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فتبينت الإبرة من شعاع نور وجهه، فضحكت، فقال: "ياحميراء! لم ضحكت"؟ قلت: كان كيت وكيت، فنادى بأعلى صوته: "ياعائشة! الويل ثم الويل (ثلاثاً) لمن حرم النظر إلى هذا الوجه، ما من مؤمن ولا كافر إلا ويشتهي أن ينظر إلى وجهي۔ (تاریخ دمشق : ٣ / ٣١٠)
(مسعدة) بن بكر الفرغاني عن محمد بن أحمد بن أبي عون بخبر كذب، انتهى. ولم أقف على الخبر بعد ووجدت له حديثاً آخر، قال الدارقطني في غرائب مالك: حدثنا أبو سعيد مسعدة بن بكر بن يوسف الفرغاني قدم حاجاً قال: حدثنا الحسن بن سفيان قال: حدثنا أبو مصعب عن مالك عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما رفعه مثل المنافق مثل الشاة العائر الحديث، قال الدارقطني: هذا باطل بهذا الاسناد، والحسن وأبو مصعب ثقتان، ولكن هذا الشيخ توهمه، فمر فيه وانقلب عليه إسناده، والله أعلم۔ (لسان المیزان : ٦ / ٢٢)
[ مسعدة بن بكر الفرغاني ، عن محمد بن أحمد ابن أبي عون : بخبر كذب ] ( ٤/٢٩ ) ، والحافظ الذهبي يقصد بالخبر الكذب، الذي حدّث به مسعدة هي هذه القصة؛ لأنها الرواية الوحيدة عنه، وأنكرها كذلك في كتابه سير أعلام النبلاء، وقال: [ لم يصح ]"۔(میزان الاعتدال : ٢/١٦٧)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
21 ربیع الاول 1447
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں