غیر اللہ کے نام کے ساتھ عبد لگاکر نام رکھنا
سوال :
مفتی صاحب! میرے ایک دوست کا نام عبد العمران ہے۔ عمران نام کے ساتھ عبدل لگانا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں، نوازش ہوگی۔
(المستفتی : عرفان احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عبد کے معنی بندہ کے آتے ہیں، اور یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ لگاکر کسی کا نام رکھا جاتا ہے، مثلاً : عبداللہ، اللہ کا بندہ، عبدالرحمن، رحمن کا بندہ وغیرہ ۔
معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی طرف سے عبدیت کا اظہار پسند ہے اور ان ناموں کے ذریعے عبدیت کا اظہار مکمل طور پر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی طرف عبد کی اضافت کرکے نام رکھنا جائز نہیں ہے، مثلاً : عبد النبی، عبد الحسین، عبد المصطفیٰ، عبدالکعبہ وغیرہ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا يقولن احدكم : عبدي وامتي كلكم عبيد الله وكل نسائكم إماء الله ولكن ليقل غلامي وجاريتي وفتاي وفتاتي ولا يقل العبد : ربي ولكن ليقل : سيدي
ترجمہ : ہرگز تم میں کوئی شخص نہ کہے کہ میرا بندہ اور میری لونڈی۔ سب مرد تمہارے اللہ کے بندے اور تمھاری سب عورتیں اللہ کی لونڈیاں ہیں بلکہ یوں کہے کہ میرا غلام اور میری لڑکی، میرا خادم اور میری خادمہ اور غلام مالک کو ’’ ربی “ (میرا رب) نہ کہے بلکہ مالک کو ’’ سیدی “ کہے۔ “ (مسلم، كتاب الالفاظ من الادب وغيرها، باب حكم اطلاق لفظة العبد والامة والمواليٰ والسيد 5875 ،5874)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام دور جاہلیت میں عبدالکعبہ تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف کا نام زمانہ جاہلیت میں عبدعمرو تھا۔ بعض نے کہا : عبدالکعبہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا۔ (الاستيعاب : 2/ 387)
ملا علی قاری رحمہ اللہ مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھتے ہیں :
ولا يجوز عبدالحارث ولا عبدالنبي ولا عبرة بما شاع فيما بين الناس.
ترجمہ : عبدالحارث اور عبدالنبی وغیرہ نام رکھنا جائز نہیں اور لوگوں میں جو یہ نام رائج ہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ (مرقاة شرح مشكوة : 513/8)
اور اگر کوئی عبد سے غلام یا خادم وغیرہ مراد لے تب بھی شبہ تو موجود ہی ہے۔ لہٰذا عبد النبی اور صورتِ مسئولہ میں عبدالعمران نام رکھنا درست نہیں ہے، اس کو تبدیل کرکے انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا پھر اچھے معنی والے نام رکھے جائیں۔
نوٹ : موجودہ حالات میں چونکہ کاغذات پر نام کا تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے، لہٰذا کاغذات یہی نام رہنے دیا جائے اور اس کے علاوہ کے لیے دوسرا نام رکھ لیا جائے۔
وَيُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ وَلَا عَبْدَ فُلَانٍ مَنْعُ التَّسْمِيَةِ بِعَبْدِ النَّبِيِّ وَنَقَلَ الْمُنَاوِيُّ عَنْ الدَّمِيرِيِّ أَنَّهُ قِيلَ بِالْجَوَازِ بِقَصْدِ التَّشْرِيفِ بِالنِّسْبَةِ، وَالْأَكْثَرُ عَلَى الْمَنْعِ خَشْيَةَ اعْتِقَادِ حَقِيقَةِ الْعُبُودِيَّةِ كَمَا لَا يَجُوزُ عَبْدُ الدَّارِ۔ (شامی : ٦/٤١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
04 ربیع الآخر 1447
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں