پیر، 17 اکتوبر، 2022

ٹور والوں کا معتمرین کے ساتھ غلط بیانی کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس کے بارے میں کہ آج کل اکثر لوگ کسی ٹور کمپنی سے عمرہ کرنے جاتے ہیں۔
ٹور آپریٹرز رقم پہلے ہی پوری لے لیتے ہیں۔ ٹور والے پہلے اشتہارات میں وعدہ کرتے ہیں کہ کھانا ایسا ہوگا۔ رہائش مکہ مکرمہ میں اتنے فاصلہ (چھ سو سات سو میٹر) سے ہوگی۔ مدینہ منورہ میں اتنے فاصلہ (ڈھائی سو تین سو میٹر) سے ہوگی۔ کھانا تو خیر جو مقدر میں ہو مل جاتا ہے۔ رہ گیا فاصلہ جو لکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، عام طور سے چھ سو سات سو والا 900 میٹر تک چلا جاتا ہے۔ اور ڈھائی سو تین سو والا پانچ تک پہونچ جاتا ہے۔ تو کیا ان کا اس طرح کم بتلا کر دور رہائش دینا کیسا ہے؟ کیا یہ ناپ طول کی کمی والے مسئلے میں آئیگا۔ یا اس کے صحیح کرنے کی کیا صورت ہوگی۔ یا معتمرین کو جتنا فاصلہ بتایا تھا زائد ہونے کی صورت میں رقم لوٹانا چاہیے۔کم فاصلہ بتا کر بکنگ کر لیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گراہک ملیں اور بعد میں کوئی سنوائی بھی نہیں ہوتی۔ تو کیا ان سے آخرت میں سوال ہوگا؟ امید کہ تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔
(المستفتی : عقیل احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج یا عمرہ کے لیے جانے والوں کے سفر اور قیام کا انتظام کرنا ایک نفع بخش تجارت کے ساتھ ساتھ اجر وثواب کا کام بھی ہے۔ لہٰذا اس میں غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

مثال کے طور پر کسی ٹور والے کے پاس حج یا عمرہ کے کئی پیکج ہیں، ایک پیکج میں حرمین سے پانچ سو میٹر قریب ہوٹل کی بات ہے اور دوسرے میں سات سو میٹر کی بات ہے اور دونوں کا چارج الگ الگ ہے، قریب والے پیکج کی قیمت زیادہ اور دور والے کی کم ہے۔ اب اگر انہوں نے پانچ سو میٹر قریب والے ہوٹل کے مطابق کسی گراہک سے پیسہ لیا ہے اور اسے سات سو میٹر قریب والے ہوٹل میں ٹھہرایا ہے تو یہ غش اور دھوکہ ہے۔ اس لیے کہ بات اگر پچیس پچاس میٹر کی ہوتو اسے سمجھا بھی جاسکتا ہے، لیکن سو دو سو کا فرق ہوتو یہ کھلی دھوکہ دہی ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ لہٰذا یہ جو واضح فرق ہوگیا ہے اس کی جو بھی مناسب رقم بنتی ہو اسے گراہکوں کو واپس کرنا ضروری ہے ورنہ بروزِ حشر ایسے ٹور والوں کی گرفت یقینی ہے۔ یا پھر گراہکوں سے معافی تلافی کی جائے اگر وہ بخوشی معاف کردیتے ہیں تو پھر عنداللہ بھی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ : " يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ، مَا هَذَا ؟ ". قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ "، ثُمَّ قَالَ : " مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (سنن ترمذی، رقم : ١٣١٥)

اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ الْغِشَّ حَرَامٌ سَوَاءٌ أَكَانَ بِالْقَوْل أَمْ بِالْفِعْل، وَسَوَاءٌ أَكَانَ بِكِتْمَانِ الْعَيْبِ فِي الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ أَوِ الثَّمَنِ أَمْ بِالْكَذِبِ وَالْخَدِيعَةِ، وَسَوَاءٌ أَكَانَ فِي الْمُعَامَلاَتِ أَمْ فِي غَيْرِهَا مِنَ الْمَشُورَةِ وَالنَّصِيحَةِ۔ (الموسوعۃ الفھیۃ : ٣١/٤٢٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں