ہفتہ، 17 مئی، 2025

فوارہ والی بوتل سے وضو کرنے کا مسئلہ

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ایک ویڈیو واٹس اپ  پر کافی وائرل ہے، جس میں گجرات کے مشہور عالم دین حضرت مولانا صلاح الدین صاحب سیفی دامت برکاتہم بتا رہے ہیں کہ مطاف وغیرہ میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو وضو بنانے کے لیے باہر آنا پڑتا ہے جو کافی فاصلے پر ہے اور پھر باہر آنے کے بعد اندر واپس جانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے، لہٰذا اگر کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ وہیں بیٹھ کر فوارے والی بوتل سے اس طرح وضو کرلے کہ صرف اعضاء وضو کو اس طرح گیلا کرلے کہ اس سے ایک دو قطرات ٹپک جائیں، پھر انہوں نے وضو کرکے بھی بتایا ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ عوام میں رائج نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں کافی تشویش پائی جارہی ہے، یکے بعد دیگرے سوالات آرہے ہیں، اسی طرح اس کے رد میں بھی تحریریں آرہی ہیں اور موافقت میں بھی، چنانچہ ان سب کو دیکھنے کے بعد کچھ باتیں بندہ کے ذہن میں آرہی ہیں جنہیں آسان فہم انداز میں لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسجد حرام کے اندر مطاف سے لگ کر سیڑھیوں کے پاس وضو خانے موجود ہیں، جہاں مردوں کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی وضو سہولت ہے۔ لہٰذا صحت مند حضرات اس مسئلے پر بالکل عمل نہ کریں بلکہ وہ وضو ٹوٹنے کی صورت میں ان وضو خانوں میں جاکر فرائض اور سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے وضو بنائیں اور مکمل اجر وثواب حاصل کریں تاکہ اختلاف سے محفوظ رہیں۔

البتہ عمردراز، ضعیف اور بیمار حضرات جن کے لیے ان وضو خانوں تک بھی پہنچنا مشکل ہے وہ فوارے والی بوتل سے وضو کرسکتے ہیں، لیکن اس طرح وضو کرنے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

اعضاء وضو چار ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے : (۱) پورا چہرہ دھونا (۲) کہنیوں تک ہاتھ دھونا (۳) چوتھائی سر کا مسح کرنا (۴) ٹخنوں تک پیروں کا دھونا ۔

درج بالا چار اعضاء میں سے ایک پر مسح کا حکم ہے، بقیہ تین کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے اور شرعاً دھونے کا مفہوم اس وقت تک متحقق نہ ہوگا جب تک کہ کم از کم وضو کے عضو کو تر کرنے کے بعد اس سے ایک دو قطرے نہ ٹپکیں، اگر اس قدر بھی تقاطر نہیں ہوا تو دھونے کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ مثلاً کسی شخص نے برف وغیرہ سے ہاتھ پیر کو تر کرلیا اور کوئی قطرہ نہیں ٹپکا تو یہ کافی نہیں۔

اسی طرح داڑھی سے متعلق حکم یہ ہے کہ جو بال چہرے کی حدود میں ہوں اور داڑھی اس قدر گھنی ہو کہ اس کے نیچے کی کھال نظر نہ آئے، تو وضو میں اس پوشیدہ وچھپی کھال کا دھونا فرض نہیں ہے، لیکن چہرے کی حدود میں جو بال ہوں (یعنی تھوڑی کے نیچے تک) انہیں دھونا ضروری ہے۔ اور اگر  داڑھی اس قدر گھنی نہیں ہے یعنی اس کے نیچے کی کھال نظر آتی ہے تو اس کھال تک پانی پہنچانا ضروری ہے۔

تاہم اگر کسی نے بلا ضرورت اس طرح وضو کرلیا کہ صرف فرض ادا کیے تب بھی اس کا وضو ہوجائے گا، البتہ سنت سے محرومی ہوگی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو موقع محل کا دین سیکھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


قَالَ اللہُ تَعَالٰی : یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا قُمْتُمْ إِلیَ الصَّلوٰۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلیَ الْکَعْبَیْنِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت : ٦)

(غَسْلُ الْوَجْهِ) أَيْ إسَالَةُ الْمَاءِ مَعَ التَّقَاطُرِ وَلَوْ قَطْرَةً. وَفِي الْفَيْضِ أَقَلُّهُ قَطْرَتَانِ فِي الْأَصَحِّ (درمختار) وفی الشامی : يَدُلُّ عَلَيْهِ صِيغَةُ التَّفَاعُلِ. اهـ.ثُمَّ لَا يَخْفَى أَنَّ هَذَا بَيَانٌ لِلْفَرْضِ الَّذِي لَا يُجْزِئُ أَقَلُّ مِنْهُ؛ لِأَنَّهُ فِي صَدَدِ بَيَانِ الْغَسْلِ الْمَفْرُوضِ۔ (شامی : ١/٩٥)

والتخلیل تفریق الشعر من جهة الأسفل إلی فوق ویکون الکف إلی عنقه ․․․ أي حال وضع الماء ویجعل ظهر کفه إلی عنقه حال التخلیل۔ (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح : ۷۰)

2 تبصرے: