میت کو نہلانے والے صابن سے متعلق ایک عقیدہ


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ایسا سننے میں آتا ہے کہ مُردے کو جس صابن سے نہلایا جاتا ہے اس بچے ہوئے صابن کو استعمال کرنے سے جلد چکنی ہو جاتی ہے پھنسی پھوڑے نہیں نکلتے، رنگت صاف رہتی ہے۔ کیا اس بارے میں شرعی طور پر کوئی بات بتائی گئی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میت کو جس صابن سے غسل دیا جاتا ہے اس کے بچے ہوئے حصہ کا استعمال کرنا شرعاً جائز ہے اور درست ہے، اسے نقصان دہ یا منحوس سمجھنا بدعقیدگی ہے، لیکن اس کے برعکس اسے اس طرح مفید کہنا اور سمجھنا کہ اس کے استعمال سے جلد چکنی ہو جاتی ہے، پھنسی پھوڑے نہیں نکلتے اور رنگت صاف رہتی ہے، بے بنیاد بات ہے۔ نہ تو قرآن وحدیث میں اس طرح کی بات ملتی ہے اور نہ طبی طور پر ایسا کچھ کہا گیا ہے، یہ ایک عجیب وغریب اور احمقانہ عقیدہ ہے، جس کا ترک کرنا ضروری ہے۔


قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٧٠٧)

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ»۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٢٢٠)

وکان القفّال یقول : فإن الأمور کلہا بید اللّٰہ، یقضي فیہا ما یشاء، ویحکم ما یرید، لا مؤخر لما قدّم ولا مقدّم لما أخّر۔ (۱۹/۲۰۳ ، خطبۃ ، خامسًا، الخُطبۃ قبل الخِطبۃ، الموسوعۃ الفھیۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ذی الحجہ 1446

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لاڈلی بہن اسکیم کی شرعی حیثیت

بوہرہ سماج کا وقف ترمیمی قانون کی حمایت اور ہمارا رد عمل