مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! کل عشاء کے بعد علماء کرام کے ایک واٹس اپ گروپ میں مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند) کے بیان کی ایک کلپ سننے میں آئی جس میں آپ فرما رہے ہیں کہ " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ (نکاح کے وقت) ان کی عمر چھ سال تھی، ایک راوی ہیں ہشام ابن عروہ صرف ان کی روایت میں یہ بات آتی ہے۔ باقی جتنے راوی وہ سب یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمر سولہ سال تھی، عربی میں سولہ کو سِتَّ عشر کہتے ہیں، کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ راوی بیان کرے ایک آدھ لفظ چھوٹ جاتا ہے، سِتَّ عشر میں سے عشر کا لفظ رہ گیا۔ سِتَّ باقی رہ گیا، جس کی وجہ سے لوگ کہنے لگ چھ سال کی عمر۔"
مفتی اسماعیل صاحب کا یہ بیان سنتے ہی مجھے حیرت کا بڑا جھٹکا لگا کہ اتنی سنگین اور بڑی غلطی آپ کیسے کرسکتے ہیں؟ چنانچہ میں نے ان کا مکمل بیان جو آپ نے اس سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر لشکر والی عیدگاہ پر ہزاروں کے مجمع میں کیا تھا دیکھا تاکہ سمجھ لوں کہ آگے آپ کوئی مزید وضاحت تو نہیں کررہے ہیں۔ لیکن بیان میں بھی اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے جس سے یہ واضح ہوگیا کہ آپ یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی جو لوگ چھ سال کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ضروری سمجھا کہ مفتی صاحب کے اس بیان کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور اس مسئلہ پر علماء امت کے اقوال نقل کئے جائیں تاکہ عوام کو صحیح بات کا علم ہو اور کسی بھی قسم کی گمراہی کو تقویت نہ ملے۔
سب سے پہلے آپ حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہشام بن عروہ کون ہیں؟ ہشام بن عروہ، حضرت عروہ بن زبیر کے بیٹے ہیں، اور عروہ بن زبیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں، حضرت عائشہ ان کی خالہ ہیں، اور انہیں اپنی خالہ کے بارے میں صحیح ترین معلومات تھیں۔ اس لیے جب ہشام بن عروہ اپنے والد اور وہ اپنی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں تو یہ روایت صحیح ترین روایت ہے۔
اس كے علاوه اس حدیث کو اکیلے ہشام بن عروہ نے بیان نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ ان كے والد سے بيان كرنے والوں ميں : ابن شھاب الزہری، ابو حمزہ میمون جو کہ عروہ کے غلام ہیں، جيسے جلیل القدر محدث بھی شامل ہیں۔ ديکھیں : صحیح مسلم (1422)
اسى طرح اس حديث كو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روايت كرنے والے ان كے بھانجے عروه بن زبير كے علاوه بھی کئی راويانِ حديث ہيں جن میں أسود بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، قاسم بن محمد بن ابو بکر، عمرۃ بنت عبد الرحمن اور یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب شامل ہیں۔ ديکھیں: صحیح مسلم (1422) سنن ابو داود (4937)۔
تو كيا اتنى تعداد میں راويوں اور حديث كے حافظوں كو ايک ساتھ غلطى لگی اور سہو ہوگیا؟
اس لیے مفتی اسماعیل صاحب کا یہ کہنا کہ صرف ایک راوی ہشام بن عروہ سے چھ سال والی روایت ملتی ہے، بقیہ سب سے سولہ سال والی روایت ملتی ہے، حقیقت کے بالکل خلاف اور ہمالیہ پہاڑ سے بھی بڑا جھوٹ ہے۔
امام ذہبی ہشام بن عروہ كہ بارے ميں فرماتے ہیں :
حجة إمام، لكن في الكبر تناقص حفظه، ولم يختلط أبدًا، ولا عبرة بما قاله أبو الحسن بن القطان من أنه وسهيل بن أبي صالح اختلطا، وتغيرا۔ (میزان الاعتدال : 4/301)
ترجمہ : ہشام بن عروہ معتبر ترين ہیں، امام ہیں۔ بڑھاپے میں ان کا حافظہ تھوڑا كمزور ضرور ہوگیا تھا لیکن انہیں کبھی اختلاط نہ ہوا۔ اس بارے میں ابو الحسن بن القطان کا ان کے اور سھیل بن ابی صالح کے بارے میں مختلط کہنا ناقابلِ اعتبار ہے۔
لہٰذا ہشام بن عروہ کے حافظے پر جرح کرکے ان كى روایت کو رد کرنا سخت غلطی ہے۔
اگر صحیح اور متفق علیہ حدیث میں موجود چھ کو سولہ اور نو کو انیس کرنا اتنا آسان ہوتا تو علماء امت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کم سنی کے نکاح کی حکمتوں اور مصلحتوں پر سینکڑوں صفحات لکھے ہیں اس کی کیا ضرورت تھی؟ مفتی اسماعیل صاحب کی بات مانیں تو یہ ساری محنتیں فضول ٹھہری۔
مفتی اشرف عباس قاسمی لکھتے ہیں :
مشہور اور محقق قول یہی ہے کہ بہ وقت نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال کی تھی اور بہ وقت رخصتی نوسال کی تھی۔ (بخاری، باب تزویج النبی عائشۃ وقدومہا المدینۃ وبنائہا بہا، ۳۸۹۴)
اگرچہ بعض حضرات نے اس قول کی تغلیط کی ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بہ وقت نکاح سولہ سال اور بہ وقت رخصتی اٹھارہ سال کی تھیں، ہمارے دیار میں اس قول کے قائلین میں سرفہرست مولانا محمد علی اور مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی صاحبان ہیں، مؤخرالذکر کا اس موضوع پر ’’تحقیق عمر صدیقۂ کائنات‘‘ کے نام سے مستقل رسالہ ہے؛ لیکن یہ قول غیرمحقق اور ناقابل اعتناء ہے : اس کی متعدد وجوہ ہیں :
۱) صحیحین کی احادیث اس بات پر متفق ہیں کہ بہ وقت رخصتی حضرت عائشہ نو سال کی تھیں۔
۲) حضرت عائشہؓ نے خود ہی اپنی شادی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’إنا زفت إلیہ وہی بنت تسع سنین ولعبہا معہا، ومات عنہا وہی بنت ثمان عشرۃ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث:۱۴۲۲)
اور ظاہر ہے کہ خود صاحب واقعہ کی تصریح کو محض کمزور بنیادوں پر رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور حضرت عائشہ جیسی قوت حفظ وفہم میں ممتاز راویہ کا خود اپنی عمر کے متعلق ایسی غلطی ہونا کہ اپنی گیارہ برس کی عمر کو چھ برس کی اور سولہ برس کی عمر کو نوبرس کی اور اپنی پچیس برس کی بیوگی کو اٹھارہ برس کی عمر کی بیوگی کہہ دے، عجوبۂ روزگار ہے۔
۳) جو حضرات اٹھارہ سال کے قائل ہیں ان کے بہ قول حضرت عائشہ کی پیدائش چار سال قبل بعثت ہوتی ہے؛ حالاں کہ یہ قول محققین کی تصریح کے بالکل خلاف ہے؛ چنانچہ ذہبی کہتے ہیں : ’’عائشۃ ممن ولدت في الإسلام‘‘ اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’وولدت – یعنی عائشۃ – بعد المبعث بأربع سنین أو خمس سنین‘‘ (الاصابۃ)
۴) کتب سیرت میں وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ کا انتقال ۵۷ھ میں بہ عمر تریسٹھ سال ہوا ہے اور یہ اس وقت درست ہوگا؛ جب کہ بہ وقت ہجرت حضرت عائشہ کی عمر ۸ سال تسلیم کی جائے۔
۵) ہشام پر طعن کرنے کے بجائے مسئلے پر اس پہلو سے غور کریں کہ حضرت عائشہ جس وقت رخصت ہوکر میکے لائی جاتی ہیں تو وہ جھولے پر سے اورکھیل سے اٹھاکر لائی جاتی ہیں، ان کی ماں ان کا منھ دھوتی ہیں، بال برابر کردیتی ہیں، چھوٹی سہیلیاں ساتھ ہوتی ہیں، یہاں آکر بھی گڑیوں کے کھیلنے کا شوق باقی رہتا ہے اور تمام واقعات واحادیث میں بالتفصیل مذکور ہیں، سوال یہ ہے کہ آیا یہ ایک نو برس کی کم سن لڑکی کا حلیہ ہے یا سولہ برس کی پوری جوان عورت کا؟ (دیکھو : مسند طیالسی، ص۲۰۵، اور دارمی، ص۲۹۲، سیرت عائشہ، ص۳۱۹)
بہ ہرحال دلائل سے یہ بات متحقق ہے کہ بہ وقت نکاح حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال اور بہ وقت رخصتی ۹ سال تھی۔
مفتی عبیداللہ قاسمی سولہ اور انیس سال والے واہیات قول کا رد کرتے ہوئے عقلی و نقلی دلائل سے بھرپور ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ :
١) اصولی طور پر احادیثِ صحیحہ میں مذکور خبر علمِ قطعی کا فائدہ دیتی ہیں اور اگر کسی تاریخی کتاب میں بات اس کے معارض ہو تو اس تاریخی کتاب کی بات احادیثِ صحیحہ کے مقابلے میں خس وخاشاک کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ہے، اور اس کی جو وجہ ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اعتبار سے بھی بخاری ومسلم وغیرہ میں مذکور حضرت عائشہ کی 9 سالہ عمر بوقت رخصتی کے مقابلے میں کسی طبری وغیرہ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
2) حضرت عائشہ کی 9 سالہ عمر بوقتِ رخصتی پر امت کا اجماع ہوچکا ہے اور امت کا اجماع معصوم عن الخطاء ہے بوجہ حدیث لاتجتمع أمتي على الضلالة۔
3) نزولِ اسلام کے وقت 9 سالہ لڑکیوں کی شادی عربوں میں خوب رائج تھی اور قابلِ اعتراض ہرگز نہ تھی، اور اسی وجہ سے اس وقت کے دشمنانِ اسلام نے اس کو قابلِ اعتراض نہ جانا ورنہ واقعہِ افک کی طرح قرآن نازل ہوجاتا۔ اس اعتبار سے بھی حضرت عائشہ کی 9 سالہ رخصتی قابلِ اعتراض نہیں ہے۔
4) نبی کے سارے اہم کام وحیِ الٰہی سے monitor ہوتے تھے، 9 سال کی عمر میں حضرت عائشہ سے نکاح بھی وحیِ الہی کی وجہ سے تھا اور نبی چونکہ معصوم ہوتا ہے، لہٰذا یہ عمل قابلِ اعتراض ہرگز نہیں ہے بلکہ مسلمان کے لئے ایسا لمحہ بھر کے لئے سوچنا بھی ایمان سوز ہے۔
5) شریعتِ اسلامیہ میں لڑکی یا لڑکے کا نکاح ولادت کے فوراً بعد بھی درست ہے۔ البتہ شادی شدہ لڑکی کے ساتھ صحبت قبلِ استطاعت یعنی مراہقت یا بلوغ (اقلِ مدت 9 سال) سے پہلے درست نہیں ہے۔ حضرت عائشہ کی رخصتی اس معیار پر بھی کھری اترتی ہے۔
6) جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں احادیث میں عمرِ نکاح بیان کرتے ہوئے عربی میں 6 یعنی سِت اور عمرِ رخصتی 9 یعنی تسع مذکور ہے وہاں دہائی یعنی عشرۃ کا لفظ رہ گیا ہے وہ دشمنانِ اسلام سے سخت مرعوبیت کی وجہ سے کہہ رہے ہیں کیونکہ اگر انہوں نے وارد کلمات پر ذرا بھی غور کیا ہوتا تو یہ بات هباءا منثورا نظر آتی اور خود پر بے ساختہ ہنسی آتی، تفصیل میں گئے بغیر مختصراً پہلے میں احادیث میں مذکور وہ الفاظ نقل کرتا ہوں :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ... (رواه البخاري)
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ ، وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا ، وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ (رواه مسلم)
قارئین مذکورہ بالا احادیث میں وارد الفاظ کو اگر صرف عربی گرامر کے اعتبار سے بھی دیکھیں تو اس بات کی لغویت واضح ہوجاتی ہے کیونکہ راوی سے اگر بھول کر عشرة کا لفظ چھوٹا ہوتا تو آگے معدود میں لفظ سنين نہ ہوتا بلکہ لفظ سنةً ہوتا مگر تمام احادیث میں لفظ سنين ہی ملتا ہے۔ نیز کیا کلامِ عرب میں اس طرح عشرة کو چھوڑ کر لکھنے یا بولنے کا رواج تھا؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں۔ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔
7) تمام محدثین اور شراحِ حدیث میں سے کسی ایک نے بھی ان احادیث کی شرح میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ روایات میں تضاد ہے یا رخصتی کی عمر 9 نہیں بلکہ 19 وغیرہ تھی، کیا سب سے، ساری امت سے غلطی ہوتی چلی گئی؟
8) اگر فرض کرلیا جائے کہ لفظ عشرة راوی سے رہ گیا اور سنةً بھی غلطی سے سنين میں بدل گیا تو سوال یہ ہے کہ پھر کوئی کھڑا ہوکر یہ پکار اٹھے کہ قرآن کی فلاں فلاں آیات میں جو اعداد مذکور ہیں ان میں فلاں فلاں عدد نقل کرنے سے رہ گیا ہے تو کیا اس کی بات درست کہی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں۔
9) جہاں تک بات اس کی ہے کہ اگر ہم نے کوشش کرکے 9 کو 19 ثابت کردیا تو اسلام دشمنوں کے بہت بڑے اعتراض سے بچ جائینگے تو یہ ذہنیت سخت جان لیوا ہے، اور اس کے نقصانات لامتناہی ہیں، کیونکہ دشمنانِ اسلام تو پورے اسلام کو ہی نشانہ بناتے ہیں، ہم تو ان کی رضامندی کے لئے احادیثِ صحیحہ میں سے ایک حدیث کی بھی تکذیب یا جان بوجھ کر غلط تاویل نہیں کرسکتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ مضبوط دلائل، احادیثِ صحیحہ میں وارد صریح عمر، احادیثِ صحیحہ میں وارد رخصتی کے وقت گڑیوں سے کھیلنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے پیچھا انہیں کھڑی کرکے مدینے میں کھیل دکھانے کی روایات کے تقاضے اور اجماعِ امت کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقتِ رخصتی 9 سال ہی تھی، 19 کی بات تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے۔
دشمنانِ اسلام عمر کے بارے میں احادیث کی تغلیط کے ذریعے دور رس اسکیمیں اور سازشیں رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اسلام دشمنوں، مستشرقین اور مغاربہ کی باتوں سے بلاوجہ مرعوب ومتاثر نہ ہوں، ان کے گستاخانہ خاکوں پر معقول دلائل کے ذریعے خاک ڈالیں، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی 9 سالہ رخصتی بوقتِ نکاح کا دفاع کریں اور اسے معقول طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں، دشمنوں کی سازشوں اور مکر کو سمجھیں۔ احساس، ادراک اور باشعوری کی ضرورت ہے۔
مسئلہ ھذا پر دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اور اکابر مفتیان کرام کے فتاوی ملاحظہ فرمائیں :
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
ہجرت سے تین سال قبل ماہ شوال 10 نبوی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا نکاح ہوا، اس وقت ان کی عمر چھ سال کی تھی، ہجرت کے سات آٹھ مہینہ بعد شوال ہی میں رخصتی ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر نو سال اور کچھ ماہ تھی۔ 9 سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہیں، جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی عمر 18/ سال کی تھی، اڑتالیس سال آپ کے بعد زندہ رہیں اور 57ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، وفات کے وقت 66 سال کی عمر تھی۔ بخاری مسلم کی روایتوں نیز سیرت اور اسماء الرجال کی کتابوں میں یہ تفصیلات لکھی ہوئی ہیں۔ آپ کو جو پہلے سے معلوم ہے کہ نو سال کی عمر میں رخصتی ہوئی وہی صحیح ہے اور جو بات آپ کو بعد میں کہیں سے پتہ چلی یعنی 19-21 سال کی عمر کی بات نکاح کے وقت، یہ غلط ہے۔ (رقم الفتوی : 1923)
مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں :
صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح ۷؍ سال کی عمر میں اور رخصتی ۹؍ سال کی عمر میں ہوئی، اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی عمر ۱۸؍سال تھی۔
لہٰذا ان صحیح روایات کی موجودگی میں عمر کے بارے میں شبہات پیدا کرنا درست نہیں، اور عرب کے ماحول میں اگر کوئی بچی ۹؍سال کی عمر میں شوہر کے قابل ہوجائے تو اس میں کوئی استبعاد کی بات نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بچپن کی حالت میں رخصتی کی ممانعت قرآن وحدیث میں کہیں مذکور نہیں ہے۔ (کتاب النوازل : ٢/٢٩٨)
علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
سنو! صحیح مسلم میں خود حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اپنا قصہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے نکاح کیا جب یہ سات برس کی تھیں اور زفاف ہوا جب نو برس کی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی جب یہ اٹھارہ سال کی تھیں۔ اور حدیث صحیح کے مقابل کوئی تاریخ نہیں ہوسکتی مورخین کے پاس محدثین کی سی سند نہیں ہوتی۔ (امداد الفتاوی جدید : ٤/٥١٧)
مفتی حمید اللہ جان صاحب کے مطبوعہ فتاوی میں درج ذیل سوال جواب موجود ہے :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس شخص کا یہ عقیدہ ہوکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرنکاح کے وقت نوسال نہیں تھی بلکہ سترہ سال تھی اس کے بارے میں شریعت میں کیاحکم ہے؟
الجواب باسم الملک الوہاب : مذکورہ شخص کانظریہ نہایت جہالت، لاعلمی اورگمراہی پر مبنی ہے۔
عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت تزوجنی النبی ۖ وانابنت ست سنین فقدمناالمدینة فنزلنافی بنی الحارث بن الخزرج …فاذانسوة من الانصار فی البیت فقلن علی الخیر والبرکة وعلی خیر طائر فاسلمتنی الیہن فاصلحن من شانی فلم یرعنی الارسول اللہ ۖ ضحی فاسلمتنی الیہ وانایؤمئذ بنت تسع سنین''…(البدایة والنہایة:١٤٣/٣)۔ (ارشاد المفتین : ١/٣٣٤)
علامہ یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
صحیح بخاری شریف اور حدیث و سیر اور تاریخ کی تمام کتابوں میں اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی اور رُخصتی کا واقعہ خود اُمّ الموٴمنین ہی کی زبانی یوں منقول ہے :
“ان النبی صلی الله علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین، وادخلت علیہ وھی بنت تسع، ومکثت عندہ تسعًا۔” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۷۱)
ترجمہ:… “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عقد کیا جب وہ چھ سال کی تھیں، اور ان کی رُخصتی ہوئی جبکہ وہ نو سال کی تھیں، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نو سال رہیں۔”
فقہائے اُمت نے اس حدیث سے متعدّد مسائل اخذ کئے ہیں، مثلاً ایک یہ کہ والد اپنی نابالغ اولاد لڑکی، لڑکے کا نکاح کرسکتا ہے، چنانچہ امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے: “باب النکاح الرجل ولدہ الصغار” یعنی آدمی کا اپنی کمسن اولاد کا نکاح کردینا۔
اس کے ذیل میں حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں :
“قال المھلب: اجمعوا انہ یجوز للأب تزویج ابنتہ الصغیرة البکر ولو کانت لا یطا مثلھا، الا ان الطحاوی حکی عن ابن شبرمة منعہ فیمن لا توطا، وحکی ابن حزم عن ابن شبرمة مطلقًا ان الأب لا یزوج بنتہ البکر الصغیرة حتی تبلغ، وتاذن، وزعم ان تزویج النبی صلی الله علیہ وسلم وھی بنت ست سنین کان من خصائصہ۔” (حاشیہ بخاری ص:۷۷۱، فتح الباری ج:۹ ص:۱۹۰)
ترجمہ:… “مہلب فرماتے ہیں کہ: اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ باپ کے لئے جائز ہے کہ اپنی چھوٹی کنواری بیٹی کا عقد کردے، اگرچہ وہ وظیفہٴ زوجیت کے لائق نہ ہو۔ البتہ امام طحاوی نے ابنِ شبرمہ سے نقل کیا ہے کہ جو لڑکی وظیفہٴ زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں، باپ اس کا نکاح نہیں کرسکتا، اور ابنِ حزم نے ابنِ شبرمہ سے نقل کیا ہے کہ باپ چھوٹی بچی کا نکاح نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، اور اجازت دیدے، ابنِ شبرمہ کا خیال ہے کہ حضرت عائشہ کا چھ سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقد کیا جانا آپ کی خصوصیت ہے۔”
گویا اُمت کے تمام فقہاء و محدثین، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کو تسلیم کرتے ہیں، اور اس پر اَحکام کی تفریع کرتے ہیں، چودہ صدیوں کے کسی عالم نے اس واقعہ کا انکار نہیں کیا، لیکن منکرینِ حدیث اور ملاحدہ اس واقعہ کا (جو حدیث، سیرت، تاریخ اور فقہ کی بے شمار کتابوں میں درج اور چودہ صدیوں کی پوری اُمت کا مُسلَّمہ واقعہ ہے) انکار کرتے ہیں، اور انکار کی دلیل صرف یہ کہ نو سال کی بچی کی رُخصتی کیسے ہوسکتی ہے؟ حالانکہ نو سال کی لڑکی بالغ ہوسکتی ہے، چنانچہ “ہدایہ” میں ہے:
وأدنی المدة لذالک فی حق الغلام اثنا عشرة سنة وفی حق الجاریة تسع سنین۔” (ج:۳ ص:۳۵۶)
ترجمہ:… “بلوغ کی ادنیٰ مدّت لڑکے کے حق میں بارہ سال اور لڑکی کے حق میں نو سال ہے۔”
بہرحال یہاں اس مسئلے پر گفتگو مقصود نہیں، بلکہ کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی عجیب واقعہ اخبارات میں چھپتا ہے تو ہمارے پڑھے لکھے، روشن خیال حضرات کو نہ کوئی اِشکال ہوتا ہے، اور نہ اس کے تسلیم کرنے میں کوئی جھجک محسوس ہوتی ہے، اور نہ کسی کو انکار کی جرأت ہوتی ہے، اور اگر کوئی ایسے واقعہ کا انکار کردے تو ہمارا روشن خیال طبقہ اس کو احمق کہتا ہے۔ لیکن اسی نوعیت کا بلکہ اس سے بھی ہلکی نوعیت کا کوئی واقعہ حدیث کی کتابوں میں نظر آجاتا ہے تو اس کا فوراً انکار کردیا جاتا ہے، اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، احادیث اور محدثین پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے، اور غریب مُلَّا کو پیٹ بھر کر گالیاں دی جاتی ہیں، اور کبھی کبھی اَزراہِ ہمدردی کتبِ حدیث کی “اصلاح” کا اعلان کردیا جاتا ہے، اور ایک دہائی بڑھاکر “چھ” کو “سولہ” اور “نو” کو “اُنیس” بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اتنی تمیز سے بھی کام نہیں لیا جاتا کہ جس طرح اُردو میں “چھ” کا اِملا “سولہ” کے ساتھ اور “نو” کا “اُنیس” کے ساتھ نہیں ہوسکتا، اسی طرح عربی میں یہ ناممکن ہے۔
سوال یہ ہے کہ اخبارات میں درج شدہ واقعات کو بلاچوں و چرا مان لینا، اور اسی نوعیت کے حدیث میں درج شدہ واقعات پر سو سو طرح کے شبہات ظاہر کرنا، اس کا اصل منشا کیا ہے؟ اس کا منشا یہ ہے کہ ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ رسالت و نبوّت پر ایمان نہیں اور ان کے دِل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احوال اور افعال کی عظمت نہیں، اس لئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے خارقِ عادت واقعات کا بڑی جرأت و دلیری سے انکار کردیتے ہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ٩/٤٤)
درج بالا چشم کشا اور متفق علیہ دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک چھ سال، رخصتی کے وقت نو سال اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت اٹھارہ سال تھی، اس پر علماء اہل سنت الجماعت کا اتفاق بلکہ اجماع ہے۔ اس لیے مفتی اسماعیل صاحب کی بات علماء اہل سنت کے موقف سے ہٹی ہوئی اور مکمل طور پر قابل رد ہے، ان پر ضروری ہے کہ وہ اس سے علی الاعلان رجوع کریں، اس لیے کہ متفق علیہ احادیث کی تکذیب کوئی معمولی جُرم نہیں ہے، اس سے منکرین حدیث کو غیرمعمولی تقویت ملنے والی ہے۔ اور چونکہ متفق علیہ احادیث پر اسلام اور قرآنی احکام کا دارومدار ہے۔ اگر ایسی درایت اور عقلی گھوڑے دوڑانے سے روایتوں کی تکذیب ہونے لگے تو کل قرآن مجید کو بھی معاذ اللہ اسی نام نہاد "درایت" کی بھینٹ چڑھانے کی مذموم اور ناکام کوششیں ہونے لگے گی، اور ساری دنیائے اسلام میں الحاد و نیچریت کا ڈنکا بجنے لگے گا اور ہمارے اسلام کے پیچھے پڑی ہوئی قوم خود ہمارے ہاتھوں کامیاب ہوجائے گی، لیکن اللہ کی مدد اور اس کے فضل سے دین کے چوکیدار علماء حق ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ ان شاءاللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تاحیات سواد اعظم اہل سنت الجماعت کے عقائد اور موقف پر قائم رکھے، اس سے ذرہ برابر بھی انحراف اور باطل کی ہر سازشوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
Hazrat allah aapko.jazaikhair de aur aapka.saaya ham par hamesha kayam rakhe .....
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ ، بہوت مدلل تشریح کی گئی۔ اتنا زیادہ مواد اس موضوع پر اس سے پہلے کبھی دیکھنے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔ اللہ آپکی تخلیقی محنت کو قبول فرمائے۔ اور بہترین جزائے خیر عطا فرمائے ۔ آمین
جواب دیںحذف کریںزبردست
جواب دیںحذف کریںمفتی اسماعیل قاسمی صاحب چونکہ ایک بڑے عالم اور بذات خود ایک مفتی ہے. انہیں اپ کی بتائی ہوئی بات کا احساس فورا ہونا چاہیے اگر وہ غلطی پر ہے تو انہیں فورا رجوع ہونا چاہیے.
جواب دیںحذف کریںلیکن دنیاوی معاملات میں وہ اتنے مصروف ہونے کی وجہ سے شاید ایسا ہونا ممکن نظر نہیں اتا ہے
صح
حذف کریںALLAH AAPKO JAZAE KHAIR DE...AAMEEN........MASHA ALLAH
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
جواب دیںحذف کریںواقعی میں بہت ہی بیباک قلم ہے آپ کا مفتیِ صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو شریعت کی پاسداری کرنے کی ہمت عطا فرمائے ۔آمین يا رب العالمین
ماشاء اللّٰہ ،بہت خوب سیر حاصل تجزیہ
جواب دیںحذف کریںوما توفیقی الّا با للّٰہ
ماشاءاللہ مفتی صاحب اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں برکت دے اور بہترین جزائے خیر دے۔
جواب دیںحذف کریںواعظ کے قول فعل میں اسقدر تضاد
جواب دیںحذف کریںممبر پناہ مانگ رہا ہے امام وخطیب سے
بہت بہت شکریہ مفتی عامر عثمانی صاحب
دیگر علماء کے سکوت پر افسوس بھی کرتا ہوں
ایسی کفریہ غلطی نہیں جس سے معافی مانگی جائے معافی رجوع ان سے منگوایا جائے جنہوں نے ۱۶ بڑھتا یا تھا اتنے ڈھیر راوی ہیں
جواب دیںحذف کریںاور یہ آپ کی تحقیق ہے
اس سے بھی لمبی تحقیق ۱۶ پر ہے پوری کتاب موجود ہے