امام کو نذرانہ دینے کے لیے جمع کی گئی رقم پوری امام کو نہ دینا

سوال :

ہماری مسجد میں ائمہ تراویح کے نذرانہ کے لیے اچھی خاصی رقم (لاکھ دیڑھ لاکھ) جمع ہوتی ہے مگر ائمہ کرام کو معمولی رقم دے کر رخصت کردیا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ائمہ کرام کے لیے جمع کردہ رقم کو مسجد کے کسی دوسرے مصرف میں استعمال کیا جاسکتا ہے جب کہ مصلیان کو اس کی کچھ بھی اطلاع یا اجازت نہ لی گئی ہونہ بعد میں حساب پیش کیا گیا ہو؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ائمہ تراويح کو نذرانہ دینے کے لیے جو رقم جمع کی گئی ہے اس کا مصرف ائمہ کرام ہی ہیں، لہٰذا جتنی رقم جمع ہوئی ہے پوری پوری ائمہ کرام کو دے دینا چاہیے اس میں سے کچھ رقم بچاکر کسی اور مصرف میں مثلاً مسجد کی تعمیر وغیرہ میں لگانا جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں نے یہ رقم مسجد میں لگادی ہے ان پر ضروری ہے کہ ائمہ کو یہ رقم واپس کریں۔

إنَّ شَرَائِطَ الْوَاقِفِ مُعْتَبَرَةٌ إذَا لَمْ تُخَالِفْ الشَّرْعَ وَهُوَ مَالِكٌ، فَلَهُ أَنْ يَجْعَلَ مَالَهُ حَيْثُ شَاءَ مَا لَمْ يَكُنْ مَعْصِيَةً۔ (شامی : ٤/٣٦٦)

شَرْطُ الْوَاقِفِ كَنَصِّ الشَّارِعِ أَيْ فِي الْمَفْهُومِ وَالدَّلَالَةِ، وَوُجُوبِ الْعَمَلِ بِهِ۔ (شامی : ٤/٣٦٦)

شَرْطُ الواقِفِ يَجِبُ اتِّباعُهُ لِقَوْلِهِمْ: شَرْطُ الواقِفِ كَنَصِّ الشّارِعِ أيْ فِي وُجُوبِ العَمَلِ بِهِ، وفِي المَفْهُومِ والدَّلالَةِ۔ (الاشباہ والنظائر : ١/١٦٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 شعبان المعظم 1444

تبصرے

  1. اور اگر صرف شب قدر کے عنوان سے رقم جمع کی گٸ ہو تب کیاکریں???

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ