منگل، 21 مارچ، 2023

امام کو نذرانہ دینے کے لیے جمع کی گئی رقم پوری امام کو نہ دینا

سوال :

ہماری مسجد میں ائمہ تراویح کے نذرانہ کے لیے اچھی خاصی رقم (لاکھ دیڑھ لاکھ) جمع ہوتی ہے مگر ائمہ کرام کو معمولی رقم دے کر رخصت کردیا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ائمہ کرام کے لیے جمع کردہ رقم کو مسجد کے کسی دوسرے مصرف میں استعمال کیا جاسکتا ہے جب کہ مصلیان کو اس کی کچھ بھی اطلاع یا اجازت نہ لی گئی ہونہ بعد میں حساب پیش کیا گیا ہو؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ائمہ تراويح کو نذرانہ دینے کے لیے جو رقم جمع کی گئی ہے اس کا مصرف ائمہ کرام ہی ہیں، لہٰذا جتنی رقم جمع ہوئی ہے پوری پوری ائمہ کرام کو دے دینا چاہیے اس میں سے کچھ رقم بچاکر کسی اور مصرف میں مثلاً مسجد کی تعمیر وغیرہ میں لگانا جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں نے یہ رقم مسجد میں لگادی ہے ان پر ضروری ہے کہ ائمہ کو یہ رقم واپس کریں۔

إنَّ شَرَائِطَ الْوَاقِفِ مُعْتَبَرَةٌ إذَا لَمْ تُخَالِفْ الشَّرْعَ وَهُوَ مَالِكٌ، فَلَهُ أَنْ يَجْعَلَ مَالَهُ حَيْثُ شَاءَ مَا لَمْ يَكُنْ مَعْصِيَةً۔ (شامی : ٤/٣٦٦)

شَرْطُ الْوَاقِفِ كَنَصِّ الشَّارِعِ أَيْ فِي الْمَفْهُومِ وَالدَّلَالَةِ، وَوُجُوبِ الْعَمَلِ بِهِ۔ (شامی : ٤/٣٦٦)

شَرْطُ الواقِفِ يَجِبُ اتِّباعُهُ لِقَوْلِهِمْ: شَرْطُ الواقِفِ كَنَصِّ الشّارِعِ أيْ فِي وُجُوبِ العَمَلِ بِهِ، وفِي المَفْهُومِ والدَّلالَةِ۔ (الاشباہ والنظائر : ١/١٦٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 شعبان المعظم 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں