جمعہ، 17 مارچ، 2023

تسبیح تراویح کے پوسٹرس


    ایک قابل توجہ مسئلہ
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام! نیکیوں کے موسم بہار ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ابھی دو چار دنوں میں تسبیح تراویح کے بڑے بڑے پوسٹرس، مختلف رنگوں اور مختلف ڈیزائنوں میں بہت سے افراد ایصالِ ثواب کی نیت سے  بڑی تعداد میں تقسیم کریں گے جنہیں مساجد میں قبلہ رخ دیواروں پر چسپاں کیا جاتا ہے، لہٰذا یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس مشہور تسبیح تراویح کی فقہی حیثیت کیا ہے؟ تاکہ ہم اس کے درجہ کے مطابق اس پر عمل کریں اور افراط وتفریط سے بچ سکیں۔

تراویح کی بیس رکعات دس سلاموں سے پڑھی جائیں گی اور ان میں ہر ترویحہ یعنی ہر چار رکعت اور وتر کے درمیان کچھ دیر ٹھہرنا مستحب ہے۔

ترویحہ کے لئے کوئی خاص عبادت متعین نہیں ہے، بلکہ اس بات کا اختیار ہے خواہ ذکر اذکار کیا جائے، یا تلاوت کی جائے یا پھر انفرادی طور پر نفل بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ بعض فقہاء سے یہ تسبیح سبحان ذی الملک والملکوت ۔۔۔ الخ  کا پڑھنا منقول ہے، اس لیے یہ تسبیح بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ یعنی تسبیح تراویح کا پڑھنا صرف جائز ہے، فرض واجب یا سنت نہیں۔ اس لئے کہ کسی حدیث شریف میں اس کا حکم یا ترغیب یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا اس پر عمل مذکور نہیں ہے، بلکہ فقہ حنفی کی کتابوں میں سب سے پہلے یہ دعا قہستانی کی شرح وقایہ میں ملتی ہے، اور قہستانی نے اس کا حوالہ "منہج العباد" نامی کتاب کا دیا ہے، پھر قہستانی کی کتاب سے علامہ شامی نے "رد المحتار" میں نقل کیا ہے، پھر ردالمحتار سے یہ دعا کتب فقہ وفتاوی میں رائج ہوگئی۔ پس اسے فرض، واجب یا سنت نہ سمجھتے ہوئے پڑھنے کی گنجائش ہے۔ البتہ اسے فرض واجب یا سنت سمجھتے ہوئے پڑھنا نیز جہراً پڑھنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ تسبیح کے علاوہ وہ اذکارِ مسنونہ جن کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہیں مثلاً سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم وغیرہ بھی پڑھ سکتے ہیں، بلکہ ان کا پڑھنا زیادہ بہتر ہے، اسی پر سلف صالحین اور اکابر علماء دیوبند رحمھم اللہ کا عمل رہا ہے۔ ذیل میں ہم چند اکابر علماء دیوبند کا معمول ذکر کرتے ہیں۔

حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ کا معمول اس کے بجائے (سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر) پڑھنے کا تھا۔

حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : احقر کہتا ہے کہ کلمہ(سبحان اللہ) الخ کی بہت فضیلت احادیثِ صحیحہ میں وارد ہے، اس لئے تکرار اس کا افضل ہے، اور یہی معمول ومختار تھا حضرت محدث وفقیہ گنگوہی ؒ کا۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند، 246/4،سوال نمبر :1761)

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ : آپ ترویحہ میں کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا : شرعاً کوئی ذکر متعین تو ہےنہیں، باقی میں پچیس مرتبہ درود شریف پڑھ لیتا ہوں۔ (تحفۂ رمضان، صفحہ نمبر۱۱۱)

فی زمانہ اس تسبیح کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جنہیں یاد نہ ہو وہ دیگر آسان اذکار کے بجائے یہی تسبیح دیکھ کر پڑھتا ہے، مساجد میں اس تسبیح کے پمفلٹ اور بڑے بڑے پوسٹرس چسپاں کیے جاتے ہیں، مسجدوں میں اس کے پوسٹرس لگانے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اسے ضروری نہیں سمجھا جارہا ہے؟ یعنی جسے یاد نہ ہوتو وہ بھی اسے پڑھنا ضروری سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے چھوٹے بڑے پوسٹرس بلکہ مستقل فریم مساجد میں آویزاں کیے جاتے ہیں۔ جبکہ اس سے ہزاروں بلکہ لاکھوں گنا زیادہ اہمیت اور فضیلت ان اذکار اور دعاؤں کی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرض نمازوں کے بعد کیا کرتے تھے۔ کیا ان کا اہتمام اسی طرح ہوتا ہے کہ ہر مسجد میں قبلہ کی طرف اس کے بڑے بڑے پوسٹرس لگے ہوتے ہیں؟ جو اذکار خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک اور عمل سے ثابت ہیں، ان کے اہتمام میں تو ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ ہم میں سے بہت سے افراد کو اس کا علم بھی نہیں ہے کہ فرض نماز کے بعد کون کون سی دعائیں اور اذکار نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کیا کرتے تھے، لیکن جو عمل آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں، اس کا اہتمام اس درجہ کیوں کیا جارہا ہے کہ لوگ اس کے پوسٹرس مسجد کی دیوار پر لگانے کے لیے ذمہ داران، ائمہ اور مؤذنین سے بحث پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس تسبیح کے پڑھے بغیر ان کی تراویح ادھوری رہ جائے گی۔

اسی طرح مسجد میں قبلہ کی طرف کی دیواروں پر اس طرح کے پوسٹرس لگانے میں اس بات کا اندیشہ بھی ہے کہ نماز کی حالت میں اگر کسی کی نظر اس پر پڑجائے اور وہ اسے زبان سے پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، اسے دوبارہ نماز ادا کرنا پڑے گا، اور اگر کوئی اس تحریر کو دیکھ لینے کے بعد اس کے الفاظ اور مفہوم کو سمجھ لے تو اس کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ تاہم قصداً ایسا کرنا مکروہ ہے۔

لہٰذا انتہائی سنجیدگی اور عاجزی کے ساتھ ہماری مساجد کے ائمہ، ذمہ داران سے درخواست ہے کہ وہ اس تسبیح کے پوسٹرس بالکل اپنی مسجدوں میں نہ لگائیں کہ یہ دین میں زیادتی کی ایک شکل پیدا ہورہی ہے۔ اسی طرح ان پوسٹرس کو تقسیم کرنے والے حضرات بھی اب اس کی زحمت نہ فرمائیں، بلکہ اور بھی دین کے کام ہیں اس پر اپنا حلال مال خرچ کریں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

12 تبصرے:

  1. بہت بہتر فرمایا آپ نے مفتی صاحب.
    جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہند و پاک کے مسلمانوں نے دین کی بجائے رسم و رواج کو زیادہ اختیار کرلیا ہے،
    یہ بھی اسی میں سے ایک مسئلہ ہے.

    اللہ ہم سب دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ۔

    بلکل صحیح اور بروقت رہنمائی فرمائی آپ نے۔

    جزاکم اللہ خیراً کثیرا۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. انصاری محمود17 مارچ، 2023 کو 11:11 PM

    ماشاء اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشاءاللہ بروقت بہتر رہنمائی
    اللہ بہتر بدلہ عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  6. ماشاءاللہ بہت خوب جزاکم اللہ خیرا کثیرا

    جواب دیںحذف کریں