اتوار، 19 مارچ، 2023

تین یا چھ دن والی تراویح


        ایک منصفانہ جائزہ اور درخواست

قارئین کرام! گذشتہ چند سالوں سے چھ دن والی تراویح کا انتظام بڑھتا جارہا ہے۔ ہر سال اس مسئلے پر متعدد سوال یا درخواست آتی ہے کہ اس پر کچھ لکھا جائے، لیکن مصروفیات اور موضوع تفصیل طلب ہونے کی وجہ سے اس پر طبع آزمائی مؤخر ہوتی رہی، لیکن اس مرتبہ کوشش کرکے کچھ لکھا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماکر ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

محترم قارئین! رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے لے کر شوال کا چاند نظر آنے تک پورے مہینے تراویح کی بیس رکعت ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے جس کا بلاعذر شرعی ترک کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔ اسی طرح تراویح میں مکمل قرآن مجید سننا ایک الگ سنت ہے۔ لہٰذا ان دونوں سنتوں پر عمل ہونا چاہیے۔ اور اس کی بہتر ترتیب یہی ہے کہ ایک یا سوا پارہ روزآنہ تراویح میں پڑھا جائے تاکہ سکون اطمینان سے ہر عمر کے لوگوں کو تراویح پڑھنے میں آسانی ہو۔

لیکن چند سالوں سے ہمارے یہاں چھ دن کی تراویح کا نظم بڑے بڑے میدانوں میں ہورہا ہے جن میں ایک بڑا مجمع ہوتا ہے، جس میں متعدد شرعی قباحتیں ہیں، جنہیں دارالعلوم دیوبند کے ایک طویل فتوی میں لکھا گیا ہے کہ ۳/۵/۷/دن میں ختم قرآن کا جو رواج شہروں میں پایا جارہا ہے، اس میں بالعموم درج ذیل مفاسد کل یا بعض پائے جاتے ہیں :

١) تجوید کو جلدی کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے، بعض جگہ تو اس قدر پڑھنے میں جلدی کی جاتی ہے کہ حروف سمجھ میں نہیں آتے، نہ زبر کی خبر نہ زیر کی، نہ غلطی کا خیال، نہ تشابہ کا۔

٢) جماعت میں شرکت کرنے والوں کاآدابِ استماع کا ضائع کرنا؛ کوئی بیٹھا ہے، تو کوئی سو رہا ہے، تو کوئی باتیں کر رہاہے، تو کوئی امام کے رکو ع میں جانے کا منتظر ہے، کوئی ” إذا قاموا إلَی الصّلاة قاموا کسالٰی“ کا مصداق بنا ہوا ہے، لوگوں کا شور وشغب کرنا، اور ان کے آمد ورفت کی چہل پہل مستزاد ہے۔

٣) بہت کم لوگ قرآن سے شغف یا اس کے سننے سے دلچسپی کی وجہ سے شرکت کرتے ہیں۔

٤) اکثر لوگ رمضان کے باقی دنوں کی تراویح سے چھٹی حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوتے ہیں۔

٥) ریاء ونمائش کے ساتھ ۳/۵/۷/ دن میں ختم قرآن کا انتظام واعلان کیا جانا، دعوت شیرینی کا اہتمام ہونا۔

٦) اس کے لیے باقاعدہ چندہ کیا جانا، اس وقت نوجوانوں میں اس رسمی مروجہ ختم قرآن کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے مسجدوں میں نماز تراویح کے لیے لوگوں کی شرکت کم ہونے لگی، بھیڑ نمازیوں کی ان جگہوں میں اکٹھا ہوتی ہے، جہاں ۳ / ۵ / ۷ /دنوں میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے، پھر ان مسجدوں میں بھی اخیر ماہ مبارک تک تراویح میں اقل قلیل افراد رہ جاتے ہیں، اور ختم قرآن کے بعد باقی دنوں میں کم ہی لوگ تنہا یا جماعت سے نماز تراویح ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 60129)

اس طرح کی تراویح کے نقصان پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی لکھتے ہیں :
سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ ایک ختم کے بعد بہت سے لوگ تروایح کی نماز ہی نہیں پڑھتے ، حالانکہ وہ پورے ماہ مسنون ہے اور بالخصوص اہل تجارت اور کاروباریوں کے یہاں تو یہ عام بات ہوگئی ہے کہ ایک ختم ایک ہفتہ میں کر لیا اور اس کے بعد تروایح ہی چھوڑ دی۔

دوسرے اس سے قرآن کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ بوڑھوں ، کمزوروں اور معذوروں میں سے بہت سے لوگ جماعت میں شریک ہوتے ہیں، وہ مجبورا شریک رہتے ہیں، حالانکہ متمکن اور تعب و کمزوری کی وجہ سے قرآن مجید سننے سے غافل اور بے توجہ ہو جاتے ہیں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو اس قدر قرآن بشاشت اور توجہ سے سنتے ہوں۔

تیسرے اس سے تلاوت میں ترتیل، الفاظ کی صحیح ادائیگی کی رعایت نہیں ہوتی اور یہ بھی مکروہ ہے .... حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم  سے مروی ہے، ترتیل کے ساتھ کم پڑھنا، ترتیل کے بغیر زیادہ اور تیز پڑھنے سے بہتر ہے ۔
یہ تو ترتیل کی بات ہے۔ راقم الحروف کا تجربہ ہے کہ اس قسم کے زیادہ پڑھنے والے حفاظ اکثر اس طرح پڑھتے ہیں کہ قرآن مجید کے الفاظ بھی سمجھ میں نہیں آتے ۔

چوتھے آج کل یہ ایک طرح کا مظاہرہ ہوگیا ہے کہ ہر حافظ اپنی تیز رفتاری اور حفظ کا مظاہرہ کرتا ہے اور اسے اپنے لئے فخر ومباہات کا ذریعہ بنالیتا ہے اور ظاہر ہے اس کی کراہت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ (جدید فقہی مسائل :135/1)

چند سالوں پہلے ایک صاحب نے چھ دن کی تراویح کی غلط انداز میں میں حمایت کرنے کی کوشش کی تھی اور انہوں نے لکھا تھا کہ :
مفتی صاحب جو لوگ سرے سے تراویح پڑھتے ہی نہیں ہیں ان کے بارے میں شریعت میں کیا حکم ہے؟

بندہ کا جواب 👇
آپ نے یہ سوال جس تناظر میں کیا ہے بندہ اسے خوب سمجھ رہا ہے، کیونکہ یہ سوچ بھی انتہائی غیرمناسب ہے اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ اس پر کچھ لکھا جائے تاکہ ایک غلط فکر کی اصلاح ہوسکے۔

آپ خود حافظ ہیں اور ماشاءاللہ تراویح بھی پڑھارہے ہیں آپ کو اس کا علم نہیں ہے کہ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے؟ اور سنت مؤکدہ کا بلاعذر ترک کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے؟

مجھے بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ ایسا گذرا ہے جس میں تمام مسلمان سو فیصد فرائض پر عمل کررہے ہوں؟ اگر کہیں کچھ مسلمان فرائض کو چھوڑ کر زندگی گذار رہے ہوں تو وہاں کے مسلمانوں میں سنتوں کی اہمیت بتانا اور تاکیدی سنتوں کے ترک پر وعید سنانا ناجائز ہوگا؟

مجھے یہ بھی بتائیں کہ فقہاء نے مکروہ تحریمی و تنزیہی کی اصطلاحات کیوں وضع کی ہیں؟ اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ مکروہ تحریمی اور تنزیہی کا حکم کب لاگو ہوتا ہے؟

اگر نہیں معلوم تو جان لیجیے کہ سنتوں کے ترک کی وجہ سےکبھی مکروہ تحریمی کا حکم لگتا ہے کبھی مکروہ تنزیہی کا۔ تو فقہاء نے جب یہ اصطلاحات وضع کی تھیں اس وقت کسی نے انہیں یہ تو نہیں کہا ہوگا کہ امت تو فرائض کو چھوڑ کر زندگی گذار رہی ہے آپ سنتوں میں کہاں پریشان ہیں؟ جائیں جاکر پہلے فرائض کا ترک کرنے والوں کو فرائض پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیں، اس کے بعد سنتوں کے ترک کرنے والوں پر حکم لگائیں۔

مجھے یہ بھی بتائیں کہ اگر اس وقت یہ نہیں کہا گیا ہے تو آج چھ دن یا دس دن تراویح پڑھ کر چھوڑ دینے کی برائی کو کوئی بیان کررہا ہے اور اس کے متعلق کوئی لکھ رہا ہے یا بول رہا ہے تو اس کی نیت پر کیوں شک کیا جارہا ہے؟ کیوں ایسے لوگوں کو پہلے فرائض کی دعوت دینے کا حکم دیا جارہا ہے؟ کیا ایسے کہنے کی وجہ سے ایک عظیم سنت کی اہمیت کم نہیں ہورہی ہے؟ اور ایک عظیم سنت کے ترک کرنے والوں کو نادانستہ طور پر شہہ نہیں دی جارہی ہے؟

کیا ایسے کہنے کی وجہ سے یہ گمان نہیں ہوتا کہ کتب فقہ و فتاوی میں مکروہات کے باب ہی ختم کردئیے جائیں اور ان کو بیان کرنا بند کردیا جائے کیونکہ ابھی تو امت کا ایک طبقہ فرائض پر بھی عمل پیرا نہیں ہے۔

ہمیں بتائیں کیا ایسا کہنا شریعت کے مزاج کے خلاف نہیں؟

اس کا کیا مطلب لیا جائے کہ کہیں بڑے گناہ ہورہے ہوں تو وہاں چھوٹے گناہ پر نکیر کرنے اور روکنے ٹوکنے کا بھی حق ختم ہوجاتا ہے؟

لہٰذا آپ سے اور اس جیسی باتیں جو بھی لکھ رہا ہے اور بول رہا ہے ان سب سے ہماری عاجزانہ و مخلصانہ درخواست ہے کہ ان سوالوں کے جواب ضرور عنایت فرمائیں۔

ان صاحب کی طرف سے مزید کچھ باتیں آئیں کہ :
مفتی صاحب کتنے تو وہ ہوتے ہے جو تراویح  پڑھتے ہی نہیں تھے لیکن اب الحمدللہ چھ دن والی تراویح تو کچھ لوگ پڑھ لیتے ہیں اور اب لوگ اس کو بھی بند کروانا چاہ رہے ہیں۔

جی ہاں! وہ تو پتہ ہے تراویح سنت مؤکدہ ہے اور تراویح کے اندر قرآن کریم ختم کرنا یہ ایک الگ سنت ہے اب سوال ان لوگوں سے ہے کیا جو تراویح سرے سے پڑھتے ہی نہیں اور جو چھ دن والی پڑھ لیتے ہیں تو کیا جو سرے سے پڑھتے ہی نہیں اور جو چھ دن والی پڑھ لیتے ہیں، دونوں برابر ہیں؟ اور کچھ لوگ چھ دن والی بند کرانے کی چکّر میں ہیں تو پھر کیا قباحت ہے چھ دن والی میں؟

جس پر بندہ کا جواب 👇
اصل میں یہ سوال ہی صحیح نہیں ہے۔

اگر کچھ لوگ مکمل طور پر سنت ترک کر رہے ہیں اور بعض لوگ کچھ حصہ ترک کررہے ہیں تو پہلے طبقہ کی وجہ سے دوسرے پر نکیر کرنا بند کردیا جائے گا؟

مکمل طور پر چھوڑنے والوں کو کون ایوارڈ دے رہا ہے؟ ان کی کون سی تعظیم و تکریم کی جارہی ہے کہ بار بار انہیں بیچ میں لایا جارہا ہے؟

حقیقت تو یہی ہے کہ جب چھ دن یا دس دن والی تراویح کا جگہ جگہ اہتمام نہیں تھا تب لوگ کسی نہ کسی طرح پہلی اور دوسری تراویح میں اپنے کاروبار کو آگے پیچھے کرکے تراویح کے لیے پہنچ جایا کرتے تھے۔ لیکن آج چھ دن یا دس کے نام پر بقیہ مکمل چھٹی مل رہی ہے تو کیونکر مہینہ بھر یہ لوگ تراویح پڑھیں گے؟

کچھ لوگ مکمل طور پر تراويح چھوڑ کر یہ گمان رکھتے ہوں کہ ہم نے گناہ کیا ہے تو امید ہے کہ انہیں توبہ کی توفیق ہوجائے۔ لیکن بعض لوگ چند دن پڑھ کر یہ سمجھیں کہ ہم نے مکمل سنت ادا کرلی تو کیا انہیں توبہ کی توفیق ہوگی؟

اس لئے احساس بہرحال چند دن پڑھنے والوں کو بھی کرایا جائے گا۔ مکمل طور پر چھوڑنے والوں کو بیچ میں لاکر ان کا جرم کم کرنے کی اور انہیں شہہ دینے کی کوشش یقیناً مذموم ہی ہے۔

اگر چھ دن والی تراویح کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس میں کم از کم 80 فیصد مجمع ان لوگوں کا ہوتا ہے جو چھ دن تراویح پڑھ کر بقیہ دن چھٹی کرنے کے مقصد آتے ہیں، کیونکہ اتنا بڑا مجمع تو بہرحال سفر پر جانے والا نہیں ہے۔ اور ان میں بھی اکثریت کی تعداد ایسی ہوتی ہے جو پہلی رکعت میں رکوع تک بیٹھا بات چیت کررہا ہوتا ہے، اور جب امام رکوع میں جاتا ہے تو یہ لوگ بھی رکوع میں چلے جاتے ہیں، اب جبکہ انہوں قرآن کا یہ حصہ تراویح میں سنا ہی نہیں بلکہ نماز کے باہر رہا تو ان کا قرآن تو ادھورا رہ گیا۔ تو پھر ان کا چھ دن تراویح سننے کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔

اگر ان سے حسن ظن رکھا جائے کہ بقیہ ایام یہ افراد الم تر کیف سے تراویح پڑھتے ہیں تو شہر کی ایسی کون سی مسجد ہے جہاں ساتویں دن سے الم تر کیف سے تراویح پڑھائی جاتی ہے؟ اور کیا یہ ہزاروں کا مجمع وہیں پہنچ جاتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ یہ لوگ کہیں اور الم ترکیف سے تراویح پڑھ لیتے ہیں تو پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ اس میں آپ کو کتنا وقت لگتا ہے؟ بلاشبہ اس میں بھی عشاء کی نماز کے ساتھ کم از کم پون گھنٹہ لگے گا۔ جبکہ سوا پارے والی تراویح میں عموماً سوا گھنٹہ لگتا ہے، اب ان سے سوال ہے کہ آپ یہ آدھا گھنٹہ بچاکر کون سا تیر مار رہے ہیں؟ کون سا آپ لاکھوں کروڑوں کا بزنس کرلیتے ہیں؟ غالب گمان ہے کہ یہ آدھا گھنٹہ آپ کا فضولیات اور لغویات میں ہی صَرف ہوتا ہوگا تو پھر سوا پارے والی تراویح اطمینان سے سننے میں آپ کو کس بات نے روکا ہے؟ آپ ایک سال اس پر عمل کرکے تو دیکھیں، ہمارا دعوی ہے کہ ان شاء اللہ آپ کی تجارت وغیرہ سارے کام عافیت کے ساتھ پورے ہوجائیں گے۔

اسی طرح ضروری سفر پر جانے والوں کو بھی بہت پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ عموماً مساجد میں شروعات میں سوا یا دیڑھ پاروں کی ترتیب ہوتی ہے، لہٰذا اپنی ترتیب کے مطابق مسجد معلوم کرکے وہاں تراويح ادا کرلی جائے جو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ کہیں سے کچھ چھوٹ جائے تو بعد میں کسی حافظ سے درخواست کرکے تراویح میں اتنا قرآن سن لیا جائے تو قرآن مجید مکمل ہوجائے گا۔ اور اگر باوجود کوشش کے آپ کا قرآن ناقص رہ گیا تو تڑپ اور کوشش کی وجہ سے آپ کو ان شاء اللہ مکمل قرآن سننے کا ثواب ضرور مل جائے گا۔

لہٰذا اخیر میں ہماری ان مخلص انتظامیہ سے مؤدبانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ بلاشبہ نیکی کے جذبہ سے یہ کام کررہے ہیں، لیکن اندیشہ ہے کہ دن بدن آپ کا یہ عمل نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق نہ بن جائے، اس لیے تین اور چھ دن والی تراویح کا نظم جو بڑے بڑے ہال اور میدانوں میں ہوتا ہے انہیں بند کردینے میں ہی عافیت معلوم ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کے تمام اعمال کو کماحقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

19 تبصرے:

  1. السلام.علیکم
    دراصل پڑھانے والوں میں جو چھ دس دن کے حامی ہیں وہ لوگ اس سے بڑا مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت خوب
    عصر حاضر کے سلگتے ہوئےمسئلہ پر آپ نے بلا خوف لومۃ لائم اپنی انگشت کو حرکت دے کر ایک اہم سنت کی افادیت اور تعمیل پر بہترین اور عمدہ تحریر لکھی ہے
    فجزاکم اللّہ احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  3. پڑھانے والے بے شک علماءو حفاظ ہیں
    یا تو وہ ضدّی ہیں یا مصلحت پسند یا بغرض روپیہ-
    تحریر ماشاء اللہ اطمنان بخش و مدلل ہے-

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت خوب مفتی صاحب ۔
    جزاک اللہ خیرا


    شہر در شہر حفاظ کی بڑھنے والی تعداد اور ان کے تراویح میں سنانے کے مسئلے پر بھی اجتماعی طور پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. زبردست مدلل تحریر

    جواب دیںحذف کریں
  6. اَلسَّلاَمُ عَلیکُم وَرَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکاَتُہ
    آپ نے سلگتے ہوئے مسئلے پر کلام کر کے بڑی ہمت کا کام کیا ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ کلام پاک کی کس قدر بے توقیری اس قسم کی تراویح میں ہوتی ہے لیکن شاید کوئی بھی مضبوط انداز میں اس کی برائی بیان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ۔ اوپر کسی صاحب کی رائے کے مطابق اس کے پیچھے مالی فوائد بھی ہیں۔ یہ بات درست محسوس ہوتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. جزاک اللہ مفتی صاحب! یہ تحریر وقت کی بہت بڑی ضرورت تھی۔ آپ نے لکھ دیا۔
    اب تو حق کہنے اور لکھنے والوں کی بھی بہت کمی ہوگئی ہے۔ اللہ پاک آپ کو بہترین بدلہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  8. ماشا اللہ بر وقت رہنمائی

    جواب دیںحذف کریں
  9. جزاك اللهُ‎ خیراً و أحسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  10. کاش یہ بات سب کی سمجھ میں آجائے
    مقامی سطح پر میرا مطلب محلہ در محلہ جس جس جگہ اس قسم کی تراویح ادا جاتی ہے اس محلے کے حفاظ و ائمہ کرام گروپ بناکر بذات خود پہنچیں اور اس قسم کا انتظام کرنے والوں کو اس سے روکنے کی کوشش کریں تو شائد معاملہ کچھ قابو میں آئے ورنہ ۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. Hamare ghar k paas
    Jaha 6 din ki taraveeh hoti h.
    Padane wale .Khud Mufti h

    جواب دیںحذف کریں
  12. بھائی صاحب کسی مفتی یا عالم کا عمل شریعت کا معیار نہیں ہے ۔
    کتاب اللّٰه اور سنت رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کا معیار ہے

    جواب دیںحذف کریں
  13. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. آپ کی یہ تحریر بلا شبہ اس وقت کی بہت اہم ضرورت تھی آپ نے یہ تحریر لکھ کر قرآن کریم کی بہت ہی عظیم خدمت انجام دی قرآن کریم کی ناموس کی حفاظت کی ہے جزاك اللهُ خیرا

    اس ‎طرح چند روزہ تراویح پڑھانے والوں کو اگر اس شرط کے ساتھ پڑھانے کے لیے کہا جاٸے کہ آپ کو بالکل بھی کوٸی نذرانہ روپیہ پیسہ نہیں ملے گا تو یہ فوراً رفو چکّر ہوجاٸیں گے۔ اللہ تعالی شریعت کے احکامات کے ذریعے اپنی اغراض فاسدہ اور نفسانیت فاحشہ حاصل کرنے والوں کو ہدایت عطا فرماٸے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  15. جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب الله تعالٰی آپ کے علم میں برکت دے

    جواب دیںحذف کریں
  16. ماشاء اللہ مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  17. جمعہ کے روز مساجد میں بیان کے ذریعے رہنمائی ہو تو زیادہ لوگوں تک بات پہنچے گی ان شاء اللہ۔ آپ نے بروقت رہنمائی فرمای ہے، اللہ آپ کو جزاء خیر عطا فرمائے اور امت کو نیک اور اچھی سمجھ عطا فرمائے آمین،

    جواب دیںحذف کریں
  18. شہراک فضاہے امام وموذن کے تعلق سے رمضان میں تحفہ وغیرہ دینے کی مگر بعض ایسے عالم حافظ جو شبینہ مدارس میں پڑھاتے ہیں اور کہیں قران سنانے کا موقع بھی نہیں مل پاتا ان کا کچھ سوچھنا

    جواب دیںحذف کریں