اشاعتیں

اپریل, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

احرام پہن کر نفلی طواف مطاف سے کرنا

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی                (امام وخطیب مسجد کوہ نور ) قارئین کرام ! گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصہ سے یہ سوال بڑی کثرت سے آرہا ہے کہ مسجد حرام میں مطاف میں اترنے کے لئے سعودی حکومت کی طرف سے یہ پابندی ہے کہ صرف احرام والوں کو نیچے مطاف میں اتر کر عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ بغیر احرام کے یعنی عام لباس میں مطاف کے گراؤنڈ میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ جبکہ اگر نفل طواف سادہ کپڑوں میں کرنا ہو تو اوپر والے منزلہ سے کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بہت زیادہ وقت لگنے کے ساتھ ساتھ بہت لمبا چکر لگانا پڑتا ہے۔ جوکہ بہت زیادہ باعث مشقت ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی شخص کعبہ کے قریب جاکر نفل طواف کرنے کی غرض سے بغیر عمرہ کی نیت کئے صرف احرام کے چادر اوڑھ کر محرمین کی شکل و صورت اپنائے اور ان کے ساتھ مطاف میں اتر جائے تو از روئے شریعت اس کا یہ عمل جائز ہوگا یا نہیں؟ اس طرح کرنا دھوکہ دہی میں شامل ہے یا نہیں؟ بہت سارے دارالافتاء نے اس کے نادرست ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ مثلاً دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن نے جو...

قرآن مجید خریدتے وقت اس کی قیمت کم کروانا

سوال : محترم مفتی صاحب  جب ہم دکاندار سے کوئی چیز خریدتے ہیں مثلا جوتا کپڑا چپل وغیرہ وغیرہ اور دکاندار سے ہم قیمت کم کرانے کا سوچتے ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کو خریدنا اور اس پر قیمت کم کرانا اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس میں کوئی گناہ کی بات ہے یا دکاندار جتنا کہے اسے اتنی قیمت دے دینا چاہیے؟ (المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کے وقت سمجھداری سے کام لینا، تجربہ کار لوگوں کے مشورہ سے فائدہ اٹھانا تاکہ دھوکہ نہ کھائے، اور مول بھاؤ کرنا شریعت کے اصولوں سے ثابت اور شرعاً مطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن مجید بھی خریدتے وقت اگر مول بھاؤ کیا جائے اور قیمت میں کچھ کمی کی بات کی جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جو لوگ اس وقت مول بھاؤ کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، انہیں اپنی غلطی درست کرلینا چاہیے۔ قال : البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي، مثل أن يقول أحدهما: بعت، والآخر: اشتريت؛ لأن البيع إنشاء تصرف، والإنشاء يعرف بالشرع والموضوع للإخبار قداستعمل فيه فينعقد به. ول...

سنت پڑھتے ہوئے امام سے آیتِ سجدہ سن لے؟

سوال : زید مسجد میں فجر کی دو رکعت سنت پڑھ رہا تھا، اِسی دوران امام صاحب نے فجر کی پہلی رکعت میں سجدہ کی آیت کی تلاوت کر کے سجدہ کیا۔ اِس کے بعد زید نے اپنی سُنت کی نماز مکمل کی اور امام صاحب کی پہلی رکعت ہی میں شامل ہو گیا۔ تو کیا اُسے امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد سجدہ کرنا چاہئے تھا؟ (المستفتی : رئیس احمد، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص سنت وغیرہ پڑھتے ہوئے امام سے آیتِ سجدہ سن لے تو وہ اپنی نماز میں سجدۂ تلاوت ادا نہیں کرے گا، بلکہ اگر وہ اپنی نماز مکمل کرنے کے امام کے ساتھ سجدے میں شامل ہوجائے یا امام کے سجدہ کرنے کے بعد اسی رکعت میں امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوگیا تو یہ سجدہ اس کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا۔ اور اس پر نماز کے بعد الگ سے سجدۂ تلاوت ادا کرنا ضروری نہیں۔  ایک قول کے مطابق اگر وہ دوسری رکعت میں شامل ہو تب بھی اس پر الگ سے سجدۂ تلاوت ادا کرنا لازم نہیں۔ لیکن محتاط قول یہ ہے کہ دوسری رکعت میں شامل ہونے والا الگ سے سجدۂ تلاوت ادا کرلے۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ زید پہلی رکعت میں ہی شامل ہوگیا...

قعدہ اخیرہ میں کون سی دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں؟

سوال : مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ کیا قعدہ اخیرہ میں درود ابراہیم کے بعد دعائے ماثورہ کے علاوہ بھی کوئی دعا پڑھی جاسکتی ہے؟ اور ان دعاؤں کی نشاندہی کردیں تو نوازش ہوگی۔ (المستفتی : عارف ندوی، مالیگاؤں) -------------------------------- بسم اللہ الرحمن الرحیم  الجواب وباللہ التوفيق : فرض، واجب، سنت اور نفل ہر نماز کے قعدہ اخیرہ میں درود شریف کے بعد قرآن و حدیث میں منقول دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں، احادیث میں اس سلسلے میں متعدد دعائیں منقول ہیں، اس میں ایک مشہور دعا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر انہیں قعدہ اخیرہ میں پڑھنے کے لیے تعلیم فرمائی تھی وہ دعا درج ذیل ہے : اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ ترجمہ : اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہ کو بخشنے والا نہیں، اس لئے تو مجھے اپنے پاس سے مغفرت عطا کر، بے شک تو بخشنے والا مہربان ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ...

خشخشی داڑھی رکھنے والے کی امامت کا حکم

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین درمیان اس مسئلہ کہ زید کو اللہ تعالیٰ نے حفظ قرآن کی دولت لازوال سے نوازا ہے اور الحمدللہ زید تراویح میں قرآن پاک کے سنانے کا بھی اہتمام کرتا ہے، لیکن دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید شرعی حلیہ کو ترجیح نہیں دیتا ہے، داڑھی کے بال ترشواتا ہے، بالکل خشخشی داڑھی رکھتا ہے۔ اور شرٹ پینٹ (ٹی شرٹ، جنس پینٹ) بھی پہنتا ہے اب آپ از روئے شرع بیان کریں کہ زید کا تراویح کی امامت کرنا کیسا ہے؟ اور ہاں اس سے قبل (گزشتہ سال) زید سے کچھ گفت و شنید بھی ہوئی تھی اور اسے اس شنیع عمل پر تنبیہ بھی کی گئی جس پر زید نے آئندہ داڑھی کو نا کٹوانے اور مزاج شریعت کے مطابق دکھنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہا سابقہ رویہ کو ہی اپنا شیوا بنایا رہا۔ (المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں) -------------------------------- بسم اللہ الرحمن الرحیم  الجواب وباللہ التوفيق : صحیح احادیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم وارد ہوا ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔ البتہ بعض حضرات صحابہ کرام...

شادی شدہ عورتوں کا جمعہ منگل میکے جانا

سوال :  بیوی کا جمعہ منگل میکہ جانے کا شرعی کیا حکم ہے؟ اور اس کی کیا حکمتیں ہیں نیز کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گھر میں فساد کی جڑ جمعہ منگل ہی ہے کیا یہ کہنا صحیح ہے؟ اکابر علماء کا اس معاملے میں کیا عمل تھا؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا (المستفتی : ابومعاویہ، مالیگاؤں) -------------------------------- بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : فقہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر پر یہ بات لازم ہے کہ وہ بیوی کو دستور کے مطابق والدین سے ملاقات کی اجازت دے، اور ہمارے یہاں چونکہ عموماً میکہ اور سسرال ایک ہی شہر میں ہوتا ہے چنانچہ دستور یہ ہے کہ ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ خواتین میکہ جاتی ہیں، لہٰذا ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ ان کا میکہ جانا جائز بلکہ ان کا حق ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس میں حکمت یہی ہوتی ہے کہ والدین کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈی کرنا اور اجروثواب حاصل کرنا، والدین اور بھائی بہنوں کے حالات جاننا، اور ایک دوسرے سے ملاقات پر والدین اور بھائی، بہنوں سے کوئی مفید مشورہ یا بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کی امداد وغیرہ کرنا۔ اسے فساد کی جڑ کہنا بالکل غلط ہے۔ جنہیں ف...

کپڑا تیار ہونے سے پہلے فروخت کردینا

سوال :   پاورلوم کے کاروبار میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ بازار میں کپڑا بیچ دیتے ہیں۔ سودے میں کپڑے کی ڈلیوری کتنے وقت میں ہونا ہے یہ بھی طے ہوتا ہے۔ مگر ان کے پاس کپڑا موجود نہیں ہوتا نا ہی کپڑے کو تیار کرنے کے لیے خام مال یعنی یارن بھی موجود نہیں ہوتا ہے۔ کپڑا بیچ کر یارن نا لینے کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آگے کچھ عرصے میں یارن کی قیمت کم ہوجائے اور کم قیمت پر خرید کر کپڑا تیار کر کے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اب کچھ حضرات کا ایسا کہنا ہے کہ کپڑا یا یارن موجود نہ ہونے کی صورت میں کپڑا بیچنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اسطرح سے کاروبار کرنے کو وہ سٹہ یا جوا کہتے ہیں۔ کیا صحیح ہے کیا غلط قرآن و احادیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : محمد اویس، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : شریعت میں بیع کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں، اُن میں ایک قسم بیع استصناع کی ہے، جس میں مبیع فی الحال موجود نہیں ہوتی، لیکن نمونہ دکھاکر یا اس کی تفصیلات بیان کرکے معاملات طے کرلیے جاتے ہیں، اور وقتِ معینہ پر شرائط کے مطابق لین دین ہوتا ہے، اس ط...

نذرانہ امام کو کم اور امام تراویح کو زیادہ دینا

سوال : مفتی صاحب! دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک مسجد میں امام صاحب تقریباً پچیس سال سے امامت و خطابت کے فرائض بڑی پابندی سے انجام دے رہے ہیں، رمضان المبارک میں عموماً چھبیسویں روزہ کو امام مؤذن اور تراویح سنانے والے حافظ صاحب کو نذرانہ دیا جاتا ہے، تراویح امام جو صرف ایک مہینہ ہی خدمت انجام دیتے ہیں انہیں نذرانہ زیادہ اور امام صاحب جو پچیس سال سے خدمت انجام دے رہے ہیں انہیں نذرانہ کم دیا جاتا ہے، ذمہ داران کا یہ طریقہ اختیار کرنا ازروئے شرع کیسا ہے؟ یا صحیح طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔ (المستفتی : انیس احمد، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : امام اور مؤذن کو جو نذرانہ رمضان المبارک میں دیا جاتا ہے وہ بلاشبہ جائز اور درست ہے، یہ امام کو سال بھر امامت کرنے اور مؤذن کو ان کی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے اکراماً دیا جاتا ہے، جسے عرفِ عام میں "حقِ رضا" یا "عید بونس" بھی کہا جاسکتا ہے۔ خواہ یہ چھبیسویں روزہ کو دیا جائے یا اس سے پہلے یا پھر بعد میں دیا جائے اور یہ رقم خصوصی طور پر چندہ کر...

عید کے دن میت کے گھر تعزیت کے لیے جانا

سوال : محترم مفتی صاحب ! ہمارے شہر میں ایک روایت یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہوتا ہے اس سال عیدالفطر کے موقع پر اس کے رشتہ دار اور متعلقین تعزیت کے لیے اس کے گھر جاتے ہیں، جبکہ اس شخص کی وفات کو کئی مہینے گزر چکے ہیں، تو کیا اس طرح کا عمل شرعاً درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : جمیل احمد، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم  الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء نے صراحتاً لکھا ہے کہ تعزیت کا وقت موت کے بعد تین دن تک ہے، تین دن کے بعد میت کے اہل خانہ کو تعزیت وتسلی دینا مکروہ ہے، البتہ اگر میت کے اہلِ خانہ یا تعزیت کرنے والا وفات کے بعد تین دن تک موجود نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی تعزیت کی گنجائش ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ تعزیت کے بعد دوبارہ تعزیت کرنا بھی صحیح نہیں۔ لہٰذا جب میت کے انتقال کو کئی دن بلکہ کئی مہینے گزر چکے ہیں تو عید کے دن اس کے گھر صرف اس نیت سے جانا کہ یہ پہلی عید ہے، اور اس کے اہل خانہ کا غم تازہ کرنا، رونا رلانا یہ جاہلانہ رسم ہے جو شرعاً بھی ناجائز ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ ہاں عید کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے میت کے گھر جانا درست ہے۔ حَ...