اپنا پروڈکٹ دوسری کمپنی کے نام سے فروخت کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ آج کل شہر میں تجارتی فائدے کے لئے یا کسی شخص کو مالی نقصان پہنچانے کے لئے کوئی شخص کسی کمپنی کے برانڈ کی ڈپلیکیٹ پلاسٹک یا باکس وغیرہ بناکر فروخت کرتا ہے، جب کہ اس برانڈ سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے تو کیا ایسا کرنا شرعی اعتبار سے صحیح ہے؟ کیا اس طرح دھوکہ دہی سے تجارت کرنا حلال ہے؟ براہ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالقدوس، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی مشہور اور معتبر کمپنی کا باکس اور لیبل وغیرہ استعمال کرکے اپنی مصنوعات فروخت کرنا جھوٹ اور دھوکہ دہی ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ احادیث میں ہر قسم کی دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو مسلمان کی شان کے خلاف بتایا ہے، اور فرمایا کہ : مومن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔ ایک اور روایت میں جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلہ فروخت کرنے والے کے پاس سے گزرے، آپ نے اپنا ہاتھ غلہ کے اندر ڈالا تو ہاتھ میں کچھ تری محسوس ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ تری کیسی ہے؟ غلہ کے مالک نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس پر بارش ہو گئی تھی، آپ نے فرمایا تم نے اس بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اس کو دیکھ لیتے، جس شخص نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

اگر وہ اپنے پروڈکٹ کی صراحت کیے بغیر فروخت کرتا ہے تو اس کی آمدنی بھی حلال اور پاکیزہ نہیں ہے، لہٰذا جو شخص اس طرح کے ناجائز اور حرام کام میں ملوث ہے اسے فوری طور پر یہ کام بند کردینا چاہیے اور ایمانداری اور دیانت داری سے تجارت کرنا چاہیے کہ اسی میں خیر وبرکت ہے۔ بے ایمانی، دھوکہ دہی اور جھوٹ، فریب کا انجام دونوں جہان میں بے برکتی اور خسارہ ہے۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ : " يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ، مَا هَذَا ؟ ". قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ "، ثُمَّ قَالَ : " مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (سنن ترمذی، رقم : ١٣١٥)

اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ الْغِشَّ حَرَامٌ سَوَاءٌ أَكَانَ بِالْقَوْل أَمْ بِالْفِعْل، وَسَوَاءٌ أَكَانَ بِكِتْمَانِ الْعَيْبِ فِي الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ أَوِ الثَّمَنِ أَمْ بِالْكَذِبِ وَالْخَدِيعَةِ، وَسَوَاءٌ أَكَانَ فِي الْمُعَامَلاَتِ أَمْ فِي غَيْرِهَا مِنَ الْمَشُورَةِ وَالنَّصِيحَةِ۔ (الموسوعۃ الفھیۃ : ٣١/٤٢٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 ربیع الآخر 1447

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مستقیم بھائی آپ سے یہ امید نہ تھی