امت محمدیہ کا حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں گواہی دینا

سوال :

مفتی صاحب! ایک ساتھی کہہ رہے تھے کہ سورۃ نوح ؑ یا قرآن کریم یا احادیث میں کہیں تذکرہ ہے کہ حضرتِ نوح ؑ کی قبولیت کی گواہی امتِ محمدیہ دے گی اس معنیٰ کرکے کہ حضرت نوح ؑ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا ہے تب جاکر حضرت نوح ؑ کی قربانی مقبول ہوگی۔ معاذاللہ
کیا یہ بات درست ہے؟ میری علمی لیاقت میں اضافہ فرمائیں بندہ مشکور ہوگا۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے وہ مکمل درج ذیل ہے :

حضرت ابوسعید ؓ کہتے ہیں کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ( میدان حشر میں ) حضرت نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے ( اپنی امت تک اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایت ) پہنچائے تھے ؟ وہ عرض کریں گے کہ بیشک اے میرے پروردگار میں نے تیرے احکام دین وہدایت اپنی امت کے لوگوں تک پہنچائے تھے ) پھر حضرت نوح علیہ السلام کی امت ( کے ان لوگوں سے کہ جن تک حضرت نوح نے اللہ تعالیٰ کے احکام دین وہدایت پہنچائے تھے ) پوچھا جائے گا کہ کیا ( نوح علیہ السلام نے ) تم تک ہمارے احکام پہنچائے تھے ؟ وہ لوگ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھی ڈرانے والا ( خواہ وہ نوح ہوں یا اور کوئی نبی ) نہیں آیا تھا اور پھر حضرت نوح علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے گواہ کون ہیں ؟ یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہوگا کہ نوح نے جو کچھ کہا ہے بالکل درست کہا ہے لیکن ان کی منکر امت کو قائل کرنے کے لئے حضرت نوح علیہ السلام سے ان کے اس دعوے پر گواہ طلب کرے گا کہ انہوں نے منصب تبلیغ ورسالت کی ذمہ داریوں کو پورا کیا تھا ) چنانچہ حضرت نوح کہیں گے کہ میرے گواہ حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت کے لوگ ہیں " اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے ) فرمایا کہ تب تمہیں پیش کیا جائے گا اور تم یہ گواہی دو گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے امت کو احکام الٰہی پہنچائے تھے پھر رسول کریم ﷺ نے ( اس صورت واقعہ کی تصدیق وتثویب کے لئے یہ آیت پڑھی ( جس میں حق تعالیٰ امت محمد ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے ) کہ ۔ " (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَا ءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُ وْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2۔ البقرۃ : 143)
ترجمہ : اور اسی لئے ہم نے ( اے مسلمانوں ) تمہیں نیک وعادل اور افضل امت بنایا ہے تاکہ تم ان لوگوں گے بارے میں ( کہ جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور کفر وشرک پر قائم رہے ہیں ) گواہی دو اور تمہارے گواہ پیغمبر ﷺ ہوں گے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم جب حضرت نوح علیہ السلام کے احکامِ الہی کی تبلیغ اور ان کی قربانیوں کو جھٹلائے گی، تب ان پر حجت قائم کرنے اور ان کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کی امت کو گواہ کے طور پر پیش فرمائیں گے۔ یہ پیشی معاذ اللہ حضرت نوح علیہ السلام کی قربانی قبول کرنے کے لیے نہیں ہوگی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ساری باتوں کا علم ہے، انبیاء کی قربانیوں کو قبول کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا جن صاحب نے اس طرح کی بے ادبی والی بات کہی ہے، انہیں ندامت شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرکے اپنی معلومات درست کرلینا چاہیے۔


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَائُ بِنُوحٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ يَا رَبِّ فَتُسْأَلُ أُمَّتُهُ هَلْ بَلَّغَکُمْ فَيَقُولُونَ مَا جَائَنَا مِنْ نَذِيرٍ فَيَقُولُ مَنْ شُهُودُکَ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ فَيُجَائُ بِکُمْ فَتَشْهَدُونَ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا قَالَ عَدْلًا لِتَکُونُوا شُهَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُونَ الرَّسُولُ عَلَيْکُمْ شَهِيدًا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٧٣٤٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
16 ربیع الآخر 1447

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مستقیم بھائی آپ سے یہ امید نہ تھی