طلاق کے بعد سسرال کے زیورات؟

سوال :

مفتی صاحب! سوال یہ ہیکہ زید نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دیا ہے، اب طلاق کی صورت میں سسرال سے جو بھی زیور دیا جاتا ہے کیا وہ طلاق ہوجانے کی صورت میں لڑکی کا رہے گا یا پھر لڑکے کا؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : انیس احمد، مالیگاؤں) 
------------------------------------------------- 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : لڑکی کو سسرال کی طرف سے زیورات دیتے وقت اگر باقاعدہ یہ کہہ کر دیا گیا تھا کہ آج سے یہ تیرے ہیں، تو اس کی مالک ہے تو اس صورت میں لڑکی اس کی مالک ہے، طلاق کی صورت میں بھی اس سے زیورات کا واپس مانگنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر زیورات دیتے وقت کچھ طے نہیں کیا گیا تھا تو لڑکے والوں کا رواج دیکھا جائے گا، اگر ان کا رواج یہ ہے کہ یہ زیورات صرف استعمال کے لیے دئیے جاتے ہیں تو پھر سسرال والے زیورات واپس مانگ سکتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے :
لڑکی (دلہن) کو اس کے سسرال والوں کی طرف سے جو زیورات کپڑے، نقد وغیرہ ملتے ہیں، انہیں دلہن کی ملکیت ثابت ہونے کا تعلق عُرف سے ہے، اگر اس علاقہ میں مالک بناکر دیدینے کا رواج ہے تو دلہن مالک ہوجائے گی، اور طلاق کے بعد بھی اس کی ملکیت برقرار رہے گی اور اگر مالک بناکر دینے کا رواج نہیں ہے بلکہ صرف پہننے کے لیے دینے کا رواج ہے جیسا کہ بعض علاقوں میں زیورات کی بابت یہی رواج ہے تو اس صورت میں دلہن اس کی مالک نہیں قرار پائے گی، بلکہ دلہن کے مطلقہ یا متوفیہ ہونے کی صورت میں دلہن کا شوہر یا سسر مالک ہوگا۔ (رقم الفتوی : 16949)

ہمارے شہر میں عُرف اور رواج یہی ہے کہ شادی کے وقت بغیر کچھ کہے سسرال والے بہو کو زیورات دیتے ہیں، اور اگر خدانخواستہ طلاق کی نوبت آجائے تو زیورات واپس ہوجاتے ہیں، بلکہ ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ لڑکے والے زیورات چھوڑنا بھی چاہیں تب بھی لڑکی والے اس کا رکھنا گوارا نہیں کرتے بلکہ واپس کردیتے ہیں۔

        
قُلْت : وَمِنْ ذَلِكَ مَا يَبْعَثُهُ إلَيْهَا قَبْلَ الزِّفَافِ فِي الْأَعْيَادِ وَالْمَوَاسِمِ مِنْ نَحْوِ ثِيَابٍ وَحُلِيٍّ، وَكَذَا مَا يُعْطِيهَا مِنْ ذَلِكَ أَوْ مِنْ دَرَاهِمَ أَوْ دَنَانِيرَ صَبِيحَةَ لَيْلَةِ الْعُرْسِ وَيُسَمَّى فِي الْعُرْفِ صُبْحَةً، فَإِنَّ كُلَّ ذَلِكَ تُعُورِفَ فِي زَمَانِنَا كَوْنُهُ هَدِيَّةً لَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَا سِيَّمَا الْمُسَمَّى صُبْحَةٌ، فَإِنَّ الزَّوْجَةَ تُعَوِّضُهُ عَنْهَا ثِيَابُهَا وَنَحْوُهَا صَبِيحَةَ الْعُرْسِ أَيْضًا۔ (شامی : ٣/١٣٥)

وَإِذَا بَعَثَ الزَّوْجُ إلَى أَهْلِ زَوْجَتِهِ أَشْيَاءَ عِنْدَ زِفَافِهَا مِنْهَا دِيبَاجٌ فَلَمَّا زُفَّتْ إلَيْهِ أَرَادَ أَنْ يَسْتَرِدَّ مِنْ الْمَرْأَةِ الدِّيبَاجَ لَيْسَ لَهُ ذَلِكَ إذَا بَعَثَ إلَيْهَا عَلَى جِهَةِ التَّمْلِيكِ، كَذَا فِي الْفُصُولِ الْعِمَادِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٢٧)

وَالْمُعْتَمَدُ الْبِنَاءُ عَلَى الْعُرْفِ كَمَا عَلِمْت۔ (شامی : ٣/١٧٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
18 جمادی الاول 1447

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مستقیم بھائی آپ سے یہ امید نہ تھی