غیرعالم کا کالج میں طلباء کو درس قرآن دینا
سوال :
محترم مفتی صاحب! اگر دنیا داری میں ماہر کوئی شخص، جس کے پاس نا عالمیت کی سند ہو، نا مولوی مولانا ہو نا ہی مفتی ہو، مگر اسکول / کالج میں طلبہ کے سامنے گھنٹوں درس قرآن، تفسیر قرآن بیان کرتا ہو، تو ایسے شخص کا یہ عمل کرنا بہتر ہوگا یا اسے ترک کر دینا چاہیے؟ براہ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شکیل احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : درسِ قرآن“ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرنے کا نام ہے اور علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے، اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ”علم تفسیر“ کے اس توضیحی عنوان میں علم تفسیر کی حقیقت نزاکت اور اس کے حصول کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو بہت ہی مختصر اور سادہ الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے، اس عنوان کی تفصیلات اور علمی بحثوں میں جائے بغیر یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم "اللہ تعالیٰ کا کلام ہے" اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لئے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے، جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو، ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے باغیوں میں شمار کروا دے گی اور تفسیر قرآن ودرس قرآن کا شوق دنیا وآخرت کی نجات وفلاح کی بجائے ہلاکت وبربادی کا ذریعہ بن جائے گا۔ اسی خطرہ کے پیش نظر علماء کرام فرماتے ہیں اور دنیا کا عام اصول بھی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی علم وفن ایسا نہیں جو اس تک پہنچنے والے متعین راستوں اور واسطوں کے بغیر حاصل ہوتا ہو، یہی اصول قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے والوں کے بھی پیش نظر ہونا چاہئے، اگر کوئی انسان اس اصول اور ضابطہ سے ہٹ کر خدا کی کتاب کو تختہٴ مشق بناتا ہے تو ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ظلم وناانصافی ہے بلکہ خود انسان اپنے اوپر بھی ظلم کرنے والا بن جاتا ہے۔
فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی لکھتے ہیں :
قرآن کریم کا ترجمہ وعظ و نصیحت میں وہ شخص بیان کرے، جس نے باقاعدہ طریقہ پر استاذ سے تعلیم حاصل کی ہو، محض اپنے ذاتی مطالعہ سے قرآن کریم کا ترجمہ بیان کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس طریقہ سے بہت سی غلطیوں میں خود مبتلا ہونے اور دوسروں کو بھی مبتلا کردینے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل، ۳؍۴۷۴)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں غیر عالم شخص جو باقاعدہ کسی مدرسے کا فارغ نہیں ہے اور نہ ہی کسی ماہر فن استاذ سے تفسیر قرآن کا علم سیکھا ہوا ہے اس کے لیے درس قرآن دینا اور قرآن کی تفسیر بیان کرنا درست نہیں ہے، اسے اس عمل سے باز آجانا چاہیے، ورنہ انجام کار یہ ہوگا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا، اسی طرح اس کالج کے طلباء طالبات کو بھی حتی الامکان کوشش کرنا چاہیے کہ یہ شخص صرف اپنے فن کی بات کرے اپنے فن سے ہٹ کر بات نہ کرے۔
عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۲۹۵۲)
قال السیوطي : اخْتَلَفَ النّاسُ فِي تَفْسِيرِ القُرْآنِ هَلْ يَجُوزُ لِكُلِّ أحَدٍ الخَوْضُ فِيهِ؟ فَقالَ قَوْمٌ: لا يَجُوزُ لِأحَدٍ أنْ يَتَعاطى تَفْسِيرَ شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ وإنْ كانَ عالِمًا أدِيبًا متسما فِي مَعْرِفَةِ الأدِلَّةِ والفِقْهِ والنَّحْوِ والأخْبارِ والآثارِ ولَيْسَ لَهُ إلّا أنْ يَنْتَهِيَ إلى ما رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي ذَلِكَ۔ (الإتقان في علوم القرآن : ٤/٢١٣)
(مَن قالَ) أيْ: مَن تَكَلَّمَ (فِي القُرْآنِ) أيْ: فِي مَعْناهُ أوْ قِراءَتِهِ (بِرَأْيِهِ) أيْ: مِن تِلْقاءِ نَفْسِهِ مِن غَيْرِ تَتَبُّعِ أقْوالِ الأئِمَّةِ مِن أهْلِ اللُّغَةِ والعَرَبِيَّةِ المُطابِقَةِ لِلْقَواعِدِ الشَّرْعِيَّةِ، بَلْ بِحَسَبِ ما يَقْتَضِيهِ عَقْلُهُ، وهُوَ مِمّا يَتَوَقَّفُ عَلى النَّقْلِ بِأنَّهُ لا مَجالَ لِلْعَقْلِ فِيهِ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۱/٣٠٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الاول 1447
استفتاء کا جواب بڑی۔ وش اسلوبی سے جچے تلے الفاظ میں دیا گیا ھے۔۔اللہ مبارک کرے ۔۔۔
جواب دیںحذف کریں