محمد نام رکھنے کی فضیلت؟
سوال :
مفتی صاحب! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے بیٹے کا نام محمد یا احمد رکھا اس کو اور اس کے بیٹے کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اور کیا یہ فضیلت تنہا "محمد" رکھنے پر ہوگی یا کسی اور نام کے ساتھ رکھنے پر بھی حاصل ہوگی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کی ارسال کردہ روایت بعض کتابوں میں ملتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام تبرکاً محمد رکھا، وہ اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے۔ لیکن ماہرِ فن علماء علامہ قاوقجی، ابن جوزی، ذھبی، ابن قیم جوزیہ وغیرہ رحمھم اللہ نے اس روایت کو غیرمعتبر قرار دیا ہے، لہٰذا اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ "محمد" نام کے باعث برکت وسعادت ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ ہمارے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے "محمد" نام رکھنے کی ترغیب دی کہ میرے نام پر نام رکھو، البتہ میری کنیت اختیار نہ کرو۔ نیز آپ نے خود کئی بچوں کا نام "محمد"رکھا ہے۔
حضرات صحابہ وتابعین کے نام اگرچہ محمد یا احمد وغیرہ مفرد ہوتے تھے جیسے محمد بن ابی بکر، محمد بن طلحہ وغیرہ۔ جبکہ موجودہ دور میں ہمارے یہاں عجمی ممالک اکثر یہ نام مرکب رکھا جاتا ہے جیسے محمد عامر، محمد اطہر اور جمیل احمد، خلیل احمد، وغیرہ۔ تو واضح رہے کہ محمد نام رکھنے میں مفرد یا مرکب کی کہیں کوئی قید یا تفریق نہیں ملتی، جس طرح "محمد" مفرد نام رکھنا افضل ہے اسی طرح اگر اس نام کو کسی دوسرے نام کے ساتھ ملاکر رکھا جائے تو یہ بھی جائز بلکہ باعثِ برکت وسعادت ثابت ہوگا۔ ان شاءاللہ
من وُلِد له مولودٌ فسماه محمدًا تبرُّكًا كان هو وولدُه في الجنةِ
الراوي: - • القاوقجي، اللؤلؤ المرصوع (٢٠٢) • موضوع
مَن وُلِدَ لَهُ مولودٌ فسمّاهُ محمَّدًا تبرُّكًا بِهِ كانَ هوَ ومولودُهُ في الجنَّةِ
الراوي: أبو أمامة الباهلي • ابن الجوزي، الموضوعات لابن الجوزي (١/٢٤١) • في إسناده من تكلم فيه • أخرجه قاضي المارستان في ((المشيخة)) (٤٥٣)، وابن الجوزي في ((الموضوعات)) (١/١٥٧) واللفظ لهما، والرافعي في ((التدوين في أخبار قزوين)) (٢/٣٤٣) باختلاف يسير
من وُلدَ له مولودٌ فسماه محمدًا تبركًا به كان هو والولدُ في الجنةِ
الراوي: - • ابن القيم، المنار المنيف (٥٢) • موضوع
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
19 ربیع الآخر 1447
مفتی صاحب میرا سوال ہے کی آج کل ہمقرے شہر مالیگاؤں میں سوشیل میڈیا پر AI پر بنائی ہوئی ویڈیو نیوز بہت شیئر ہو رہو ہے جس میں آئی جنریٹڈ عورتوں کو حجاب یا غیر حجاب میں بتایا جا رہا ہے کیا اِس ترہے کی ویڈیو بنا نا جائز ہے اور اس ترہے کی ویڈیو شیئر کرنا کیسا ہے
جواب دیںحذف کریںمیں نے مولانا قاری احمد علی فلاحی صاحب کے ایک بیان میں سنا ھے کہ جس گھر میں بچہ پیدا ہو اور وہ اُس بچے کا نام محمد رکھےتو اس گھر میں کبھی فاقہ نھی آئے گا سچ ھے
جواب دیںحذف کریں