رشتہ کے وقت لڑکی/ لڑکا کے صحیح حالات بیان کرنا؟
سوال :
مفتی صاحب! ایک شخص مجھ سے آ کر یہ کہا کہ آپ کے محلے کے فلاں شخص کے لڑکے سے میں اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہوں، آپ ان کو اچھی طرح جانتے ہیں، اس لئے آپ ان کی عادت اور کردار کے بارے میں تفصیل سے بتا دیں، تو ایسی صورت میں ان کو اس لڑکے کی تمام اچھی بری بات بتا دینا صحیح ہے یا یہ غیبت میں شمار ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق : ہر صورت میں کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی، غلطی یا عیب کو بیان کرنا غیبت نہیں ہے، بلکہ بعض مواقع ایسے بھی ہوتے جہاں علماء کرام نے غیبت کو غیبت نہیں کہا ہے، ان مقامات کو امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم شریف کی شرح میں اور فقہ حنفی کے مشہور و معروف فقیہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں ذکر فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کے ساتھ معاملہ کرنے مثلاً نکاح، معاملات یا سفر کے بارے میں مشورہ کرنے والے کے سامنے حقیقت بیان کرنا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص آپ سے اپنی بیٹی کے رشتہ کے لیے کسی لڑکے کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہے ہیں اور آپ کو اس لڑکے کی اچھی بری عادتوں کا یقینی علم ہے تو آپ صحیح اور حقیقی صورتحال بیان کردیں، حقیقت بیان کرنے سے آپ کو غیبت کا گناہ نہیں ملے گا۔
(وَكَذَا) لَا إثْمَ عَلَيْهِ (لَوْ ذَكَرَ مَسَاوِئَ أَخِيهِ عَلَى وَجْهِ الِاهْتِمَامِ لَا يَكُونُ غِيبَةً إنَّمَا الْغِيبَةُ أَنْ يَذْكُرَ عَلَى وَجْهِ الْغَضَبِ يُرِيدُ السَّبَّ) وَلَوْ اغْتَابَ أَهْلَ قَرْيَةٍ فَلَيْسَ بِغِيبَةٍ لِأَنَّهُ لَا يُرِيدُ بِهِ كُلَّهُمْ بَلْ بَعْضَهُمْ وَهُوَ مَجْهُولٌ خَانِيَّةٌ فَتُبَاحُ غِيبَةُ مَجْهُولٍ وَمُتَظَاهِرٍ بِقَبِيحٍ وَلِمُصَاهَرَةٍ وَلِسُوءِ اعْتِقَادٍ تَحْذِيرًا مِنْهُ۔
وَفِي تَنْبِيهِ الْغَافِلِينَ لِلْفَقِيهِ أَبِي اللَّيْثِ: الْغِيبَةُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَوْجُهٍ: فِي وَجْهٍ هِيَ كُفْرٌ بِأَنْ قِيلَ لَهُ لَا تَغْتَبْ فَيَقُولُ: لَيْسَ هَذَا غِيبَةً، لِأَنِّي صَادِقٌ فِيهِ فَقَدْ اسْتَحَلَّ مَا حُرِّمَ بِالْأَدِلَّةِ الْقَطْعِيَّةِ، وَهُوَ كُفْرٌ، وَفِي وَجْهٍ: هِيَ نِفَاقٌ بِأَنْ يَغْتَابَ مَنْ لَا يُسَمِّيهِ عِنْدَ مَنْ يَعْرِفُهُ، فَهُوَ مُغْتَابٌ، وَيَرَى مِنْ نَفْسِهِ أَنَّهُ مُتَوَرِّعٌ، فَهَذَا هُوَ النِّفَاقُ، وَفِي وَجْهٍ: هِيَ مَعْصِيَةٌ وَهُوَ أَنْ يَغْتَابَ مُعَيَّنًا وَيَعْلَمُ أَنَّهَا مَعْصِيَةٌ فَعَلَيْهِ التَّوْبَةُ، وَفِي وَجْهٍ: هِيَ مُبَاحٌ وَهُوَ أَنْ يَغْتَابَ مُعْلِنًا بِفِسْقِهِ أَوْ صَاحِبَ بِدْعَةٍ وَإِنْ اغْتَابَ الْفَاسِقَ لِيَحْذَرَهُ النَّاسُ يُثَابُ عَلَيْهِ لِأَنَّهُ مِنْ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ اهـ.
أَقُولُ: وَالْإِبَاحَةُ لَا تُنَافِي الْوُجُوبَ فِي بَعْضِ الْمَوَاضِعِ الْآتِيَةِ...... (قَوْلُهُ وَلِمُصَاهَرَةٍ) الْأَوْلَى التَّعْبِيرُ بِالْمَشُورَةِ: أَيْ فِي نِكَاحٍ وَسَفَرٍ وَشَرِكَةٍ وَمُجَاوَرَةٍ وَإِيدَاعِ أَمَانَةٍ وَنَحْوِهَا فَلَهُ أَنْ يَذْكُرَ مَا يَعْرِفُهُ عَلَى قَصْدِ النُّصْحِ۔ (شامی : ٦/٤٠٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
25 محرم الحرام 1447
ایسی باتیں بیان کرنا جو سامنے والے میں موجود نہ ہوں یا پھر اچھی باتوں کو چھپا کر برائیاں واضح کرنا مقصد رشتہ توڑنا ہو تو ایسا کرنا کیسا ہے
جواب دیںحذف کریں