نماز میں عورتوں کی ہتھیلی کھلی رہنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! خواتین کے ہاتھ نیت باندھتے وقت اوڑھنی کے اندر ہی ہوتے ہیں اور رکوع میں بھی ہاتھ اندر ہی ہوتے ہیں، لیکن سجدے میں ہاتھ تھوڑا سا اوڑھنی کے باہر ہوجاتے ہیں تو کیا اس کی وجہ سے نماز پر کوئی اثر ہوگا؟ مدلل جواب مرحمت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مختار احمد، مالیگاؤں) 
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کی ہتھیلیاں نماز کی حالت میں ان کے لیے ستر نہیں ہیں جن کا چھپانا ضروری ہو، لہٰذا نماز کی حالت میں عورتوں کے لئے کپڑے سے باہر کھلا رکھنا جائز اور درست ہے، یہی راجح اور صحیح قول ہے۔ چنانچہ صورتِ مسئولہ میں اگر سجدہ کی حالت میں ہتھیلیاں کھل جائیں، تب بھی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ کلائیاں کھولنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ کلائیاں ستر ہیں۔ اگر کلائیوں کا چوتھائی حصہ تین تسبیحات کے بقدر کھلا رہ گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔


وللحرۃ جمیع بدنہا خلا الوجہ، والکفین، والقدمین۔ وتحتہ في الشامیۃ: وفي مختلفات قاضي خاں وغیرہا، أنہ لیس بعورۃ وأیدہ في شرح المنیۃ بثلاثۃ أوجہ، وقال: فکان ہو الأصح، وإن کان غیر ظاہر الروایۃ۔ (تنویر الأبصار مع الشامي : ۲/۷۸)

ویمنع حتی انعقادہا کشف ربع عضو قدر أداء رکن بلا صنعہ۔ (درمختار) قال شارحہا : وذلک قدر ثلث تسبیحات الخ۔ قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل فی الإنکشاف الحادث فی أثناء الصلوٰۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقاً اتفاقاً بعد أن یکون المکشوف ربع العضو۔ (شامی : ۲؍۸۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 شوال المکرم 1441

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لاڈلی بہن اسکیم کی شرعی حیثیت

بوہرہ سماج کا وقف ترمیمی قانون کی حمایت اور ہمارا رد عمل