پیر، 15 اکتوبر، 2018

رودادِ سفر حیدرآباد و یک روزہ پیامِ انسانیت ورکشاپ

*رودادِ سفر حیدرآباد و یک روزہ پیامِ انسانیت ورکشاپ*

✍ محمد عامرعثمانی ملی

            سفرنامہ ادب کی ایک قسم ہے، اور سفرنامے کی کئی قسمیں ہیں، وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ سفرناموں کے انداز بھی بدلتے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قدیم سفرناموں اور جدید دور کے لکھے گئے سفرناموں میں بڑا فرق ہے، پہلے سفرنامے تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے لکھے جاتے تھے، تاریخ، معلومات، جغرافیہ وغیرہ کو ترجیح دی جاتی تھی، آج کل ایسا نہیں ہے۔ آج کے دور میں ہلکے پھلکے سفرناموں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہورہی ہے، بندہ کا یہ سفرنامہ بھی اسی قسم کا ہلکا پھلکا اور تکلفات سے پَرے ہے، جس میں شہر حیدرآباد، اور دیگر مقامات کی تاریخی اور جغرافیائی معلومات سے قطع نظر مشاہدات کو ترجیح دی گئی ہے، جسے روداد اور آپ بیتی بھی کہا جاسکتا ہے، اور یہ روداد چونکہ اپنے دوستوں اور متعلقین کے لئے لکھی جارہی ہے اس لیے ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بعض باتیں دیگر قارئین کو پسند نہ آئیں، جس کے لیے بندہ معذرت خواہ ہے، ویسے بھی بندہ نے تمام حالات کو الگ الگ عنوان کے تحت لکھا ہے، تاکہ عنوان پر نظر ڈالنے کے بعد جسے جو مطلوب ہو وہ پڑھ لے، رودادِ سفر کچھ اس طرح سے ہے :

٦ جولائی بروز جمعہ بعد نماز عصر استاذ محترم حضرت مولانا جمال عارف صاحب ندوی دامت برکاتہم (مہتمم جامعہ ابوالحسن علی ندوی) کی معیت اور سرپرستی میں راقم الحروف اور مولانا ساجد صاحب ندوی (امام و خطیب مسجد بلال) مالیگاؤں سے منماڑ بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوئے، منماڑ پہنچ کر اسٹیشن والی مسجد میں نماز مغرب ادا کی، اس کے بعد عشائیہ مسجد میں ہی تناول کرنے کے بعد ریلوے اسٹیشن پہنچے، ٹرین کی روانگی کا وقت چونکہ 8 = 50 پر تھا اس لیے عشاء کی نماز وہاں نہ پڑھ سکے، اور الحمدللہ ٹرین بھی اپنے مقررہ وقت پر چل پڑی۔
ریزرویشن ہونے کی وجہ سے سفر بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ شروع ہوگیا، چونکہ بندے نے دوسری مرتبہ ریزرویشن پر سفر کیا ہے اس لیے بطور خاص سکون و اطمینان کا ذکر کردیا، کیونکہ اب تک دو چار سفر جو بذریعہ ٹرین ہوئے ہیں وہ سب بغیر ریزرویشن کے تکالیف سے پُر ہوئے ہیں۔

خیر! ہمارا یہ سفرحضرت مولانا سے علمی استفادہ اور حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کے ساتھ چلتا رہا، اورنگ آباد اسٹیشن پر اتر کر پلیٹ فارم پر عشاء پڑھی گئی، اس کے بعد پھر سفر شروع ہوا، کچھ دیر بات چیت کا سلسلہ چلا اور پھر آرام کرنے کا فیصلہ ہوا، فجر کے وقت حضرت مولانا نے ہمیں جگایا فجر کی نماز ٹرین میں ہی ادا کی گئی، حضرت مولانا کے اکثر طول طویل اسفار ہوتے رہتے ہیں اس لیے ان کے سفری بیگ میں ضروریاتِ سفر کی تمام چیزیں مہیا ہوتی ہے، مثلا سفری جائے نماز اور قبلہ نما وغیرہ جس کی وجہ سے نماز کی ادائیگی میں بڑی آسانی ہوتی ہے، فجر کی ادائیگی کے بعدبھی ٹرین کے منزل مقصود پہنچنے میں وقت تھا، اس لئے ہم لوگ پھر سوگئے، آٹھ بجے اٹھ کر بیگ وغیرہ پیک کرکے تیار ہوگئے نو بجے کے بعد ٹرین سکندر آباد اسٹیشن پہنچی جہاں ہمارے میزبان گاڑی لئے ہمارے منتظر تھے، چنانچہ ان کے ہمراہ ورکشاپ کے مقام پر پہنچ گئے۔

*تحریک پیام انسانیت کیا ہے؟*

وطنِ عزیز ہندوستان کا ایک طبقہ ہم مسلمانوں کے بارے میں منفی سوچ رکھتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ یہاں مسلمان اپنے ملی تشخص کے ساتھ باقی رہیں، بلکہ ان کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان بھی یہاں کے قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ جس کے لیے کوشش کی جانے لگی کہ برادرانِ وطن کے ذہنوں کو مسلمانوں کے متعلق خراب کیا جائے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ : ایک مرتبہ ایک مسلمان کا اپنے ہندو دوست کے یہاں جاناہوا۔ اتفاق سے کھیلتے ہوئے ہندو دوست کا بچہ باہر آیا تو مسلمان نے اس کو بلایا اور نام وغیرہ معلوم کرنے کی کوشش کی، اپنے قریب کرنا چاہا، مگر وہ لڑکا اور دور بھاگ گیا، اس پر ہندو دوست بھی اپنے بچے سے کہا: بیٹا! تمھارے چچا ہیں، قریب آؤ، تو اس نے باپ کے کان میں کچھ کہا، مسلمان دوست نے معلوم کرنا چاہا کہ بچہ نے کیا کہا؟ مگر یہ دوست بچہ کے کہنے پر اس قدر شرمندہ تھے کہ بتانا مشکل تھا، جب زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کہ رہاہے : “مسلمان کے جیب میں چھری ہوتی ہے، قریب نہیں جانا چاہیے۔

اسی لیے ملک کے ان حالات کا علم رکھنے والے علماء و مفکرین کا یہ ماننا ہیکہ اگر یہی حالات رہے تو شاید ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا۔
تحریک پیام انسانیت کے جنرل سیکریٹری مولانا سید بلال عبد الحئ حسنی ندوی مد ظلہ رقمطراز ہیں : اس خطرہ کو مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی رحمة الله عليه نے آج سے تقریباً ساٹھ سال قبل محسوس کیا تھا اور اس بات کا آپ کو یقین ہوگیا تھا کہ اگر ان غلط فہمیوں کو دور نہ کیا گیا تو آگے حالات خطرناک ہوجائیں گے۔ لہذا آپ نے 1950ء یا 1951ء میں یہ کام شروع کیا۔ مخلوط اجتماعات کیے، جن میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا اور انسانیت کی بات ہوتی تھی، اکثر حضرت مولانا خطاب فرمایا کرتے تھے لیکن جب حضرت مولانا کے بیرون ممالک کے اسفار شروع ہوگئے تو یہ سلسلہ ایک عرصہ تک موقوف رہا۔ اس کے بعد دوبارہ 1974 میں الہ آباد سے مولانا نے باقاعدہ “تحریک پیام انسانیت” کا آغاز کیا اور فرمایا کہ “اب تک میں نے بہت انتظار کیا، میں لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں، تحریکی آدمی نہیں ہوں۔ میں منتظر تھا کہ کوئی بھی اللہ کا بندہ کھڑا ہو جائے، چاہے ہندؤوں میں کوئی کھڑا ہو جائے یا مسلمانوں میں، وہ اصلاح کیلیے علم بلند کرے اور انسانیت کی بات کرے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنا عرصہ گزر گیا اور کوئی آواز نہیں اٹھی، اب میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک یہ آواز پہنچ سکے پہنچاؤوں” اور پھر حضرت مولانا نے الہ آباد سے پیام انسانیت کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں دورے ہوے، بڑی بڑی کانفرنسیں ہوئیں اور الحمدللہ اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ تادم حیات حضرت مولانا یہ کام کرتے رہے۔ آپکے بعد مولانا عبداللہ حسنی ندوی رحمہ اللہ نے یہ کام سنبھالا، انہوں نے یہ کوشش کی کہ یہ صرف نظریاتی بات نہ رہ جائے، مسئلہ صرف گفتگو اور کانفرنسوں کی حد تک نہ رہے بلکہ اس کی ایسی عملی شکلیں بھی اختیار کی جائیں کہ اس سے لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور ان کے ذریعہ سے ثابت کیا جائے کہ مسلمانوں کے بارے میں جو سوچا اور سمجھا جاتا ہے وہ حقیقت کے خلاف ہے، اسلامی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہمیں انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنی ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنا ہے، اگر اسلام کی ان تعلیمات کی عملی شکلیں اختیار کی جائیں تو حالات میں اور زیادہ بہتر طریقہ پر تبدیلی پیدا ہو گی۔ الحمدللہ اس سلسلہ میں کوششیں شروع کی گئیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ان کے بہتر نتائج بھی سامنے آرہیں ہیں۔
چنانچہ اس تحریک کو مزید مضبوط اور آگے بڑھانے کے لئے آج کا یہ ورکشاپ منعقد کیا ہے۔
(مستفاد : تحریک پیام انسانیت وقت کی اہم ضرورت، از محمد عمران مظاہری)

*یک روزہ پیام انسانیت ورکشاپ*

مذکورہ ورکشاپ حیدرآباد کے "نام پلی" علاقہ کی وسیع و عریض مسجد "جامع مسجد ٹین پوش" کے فوقانی ہال میں منعقد کیا گیا تھا، جس وقت ہم لوگ مسجد پہنچے اجلاس شروع ہوا چاہتا تھا، فریش ہونے کے بعد ہمارے واٹس ایپ گروپ کے دوست مولانا عبدالقیوم ذیشان صاحب ندوی سے ملاقات ہوئی، بڑے باذوق اور تحریک پیام انسانیت کے فعال کارکن ہیں، حیدرآبادی پرتکلف ناشتے سے نمٹ کر ہم لوگ جیسے ہی جلسہ گاہ پہنچے، آل انڈیا پیام انسانیت فورم کے جنرل سیکرٹری "حضرت مولانا بلال عبدالحی الحسنی ندوی" اطال اللہ بقاؤھم کی آوازِ دل پذیر ہماری سماعتوں سے ٹکرائی، حضرت فرمارہے تھے کہ پیام انسانیت کا کام کوئی الگ راستہ نہیں ہے بلکہ یہ تو دیگر شعبوں کی راہ ہموار کرنے کا کام ہے، اور یہ ایسا کام ہے جو ہر شعبہ اور تحریک، ہر مسلمان بلکہ ہر انسان اور انسانیت کی ضرورت ہے، آگے فرماتے ہیں کہ اگر گھر کا ایک فرزند بگڑ جائے بے راہ روی کا شکار ہوجائے تو پورے گھر والوں کا چین و سکون غارت ہوجاتا ہے، کوئی کہے کہ ایک لڑکا تو بگڑا ہے بھاڑ میں جائے کیا ہوتا ہے؟ بھاڑ میں کیسے جائے؟ وہ آپ کو چھوڑے گا نہیں، آپ کی نیندیں حرام کردے گا،
اسی طرح کسی ملک میں رہنے والے کسی ایک مذہب، کمیونٹی یا برادری کے لوگ بگڑ جائیں، اور ان کے اندر ایک دوسرا طرز عمل پیدا ہوجائے تو دیگر مذاہب اور کمیونٹی کے لوگ اس ملک میں چین سے نہیں رہ پائیں گے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پیام انسانیت کے کام کو سمجھیں اور اس کام کو کرنے والے بنیں۔
حضرت کے فکر انگیز خطاب کے بعد سات صوبوں (تلنگانہ، آندھرا، کرناٹک، کیرلہ، تمل ناڈو، گجرات،  مہاراشٹر سے تشریف لائے کارکنان نے اپنے اپنے علاقوں کی کارگذاری بیان کیں۔

*پیام انسانیت کارکنان کی کارگذاریاں*

ورکشاپ کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ حضرت مولانا بلال صاحب مدظلہ العالی نے خطاب کے بعد ناظم مجلس کی ذمہ داری بھی سنبھال لی اور اخیر تک اپنی مسند پر جمے رہے۔
کارگذاری کا سلسلہ شروع ہوا، سب سے پہلے شہر حیدرآباد حلقہ نام پلی کے ذمہ دار مولانا صدیق صاحب ندوی جو کہ میزبان انتظامیہ میں سے بھی تھے، پیام انسانیت کے پلیٹ فارم سے کئے گئے  کاموں کو شمار کرایا۔
یکے بعد دیگرے تمام علاقوں کے ذمہ داروں نے کارگذاریاں بیان کیں،
کارگذاری سنانے کا سلسلہ ظہر تک چلتا رہا، ظہر کی نماز کے بعد دوبارہ یہ سلسلہ شروع ہوا، سات صوبوں کے درجنوں مقامات سے پیام انسانیت کے کارکنان آئے ہوئے تھے، جن میں سے چند علاقوں کے ذمہ داران کے اسماء درج ذیل ہیں :

*تلنگانہ*

نام پلی        مولانا صدیق ندوی
امبر پیٹ     مولانا قطب الدین
سکندرآباد       مولانا الیاس
ونستھلی پورم      مولانا نورالدین
محبوب نگر        مولانا سید فہیم
نظام آباد        مولانا ابراہیم
عادل آباد      مولانا ابوذر
نظام آباد      مولانا ابراہیم

*آندھراپردیش*

وجئے واڑہ، وشاکا پٹنم    مولانا مقبول
نیلور              عبدالرشید صاحب
اننت پور     مولانا عبدالسلام قاسمی

*کرناٹک*

بنگلورمولانا صغير ندوی
منگلور مولانا فرحان
بھٹکل  مولانا حاذق

*مہاراشٹر*

اورنگ آباد     مولانا جنید ندوی
مالیگاؤں          مولانا جمال عارف ندوی
پونہ       مولانا رزین اشرف ندوی
جالنہ     حافظ شبیر

نلگنڈہ علاقے کے مفتی یاسر صاحب قاسمی نے ایک کارگذاری سنائی کہ حیدرآباد کے ہی کسی ہاسپٹل میں ایک غريب غیرمسلم کا پیام انسانیت کے کارکنان نے علاج کروایا، جب وہ تندرست ہوکر اپنے گاؤں لوٹا اور وہاں اس نے اپنے حالات دیگر لوگوں کو سنائے تو اس گاؤں کے سرپنچ کا کارکنان کو فون آیا، اس نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو نہیں جانتا کہ آپ کون لوگ ہیں لیکن میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے گاؤں میں آپ کے کچھ لوگ بیگ لے کر آتے ہیں، آئندہ انھیں کسی بھی قسم کی ضرورت ہوئی تو ہم ان کا ضرور تعاون کریں گے۔
اسی طرح پیام انسانیت کارکنان کی خدمات کی وجہ سے بعض تعصّب پسند سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کے کٹر اور متعصب اراکین متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کام میں تعاون کرنے کا یقین دلایا اور بعض افراد خود باقاعدہ اس کام میں شریک ہیں۔

مالیگاؤں، کوپرگاؤں کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت مولانا جمال عارف صاحب نے مالیگاؤں میں چل رہے کام کے متعلق بتایا کہ ہمارے یہاں ہر ہفتہ سنیچر کے دن علی میاں ندوی فاؤنڈیشن میں مشورہ ہوتا ہے، اور پندرہ دن پر سول ہاسپٹل، یا روٹری آئی ہاسپٹل میں پھل اور بسکٹ کے ساتھ مریضوں کی عیادت کی جاتی ہے، اور کچھ دیر ان سے انسانیت کے عنوان سے باتیں بھی کی جاتی ہیں، جس کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں خصوصاً ہاسپٹل کے عملہ کی طرف سے مکمل تعاون ہوتا ہے۔
اسی طرح کوپرگاؤں کے کارکنان کی ایک کارگذاری سنائی کہ  ایک پاگل شخص جو گندگی اور غلاظت میں پڑا رہتا تھا اور اپنے گھر والوں اور آس پاس کے لوگوں کے بڑی مصیبت کا سبب بنا ہوا تھا، کارکنان اسے اٹھا کر ہاسپٹل لے گئے اور وہاں اس کا مکمل علاج کروایا اب وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گذار رہا ہے، جس کے کافی اثرات لوگوں پر ہوئے ہیں۔

اخیر میں صوبہ مہاراشٹر کے سب سے فعال رکن مولوی جنید صاحب ندوی نے اورنگ آباد میں پیام انسانیت کے کاموں کو تفصیل سے بیان کیا، مولانا جنید صاحب نے اورنگ آباد سے پربھنی تک آنے والے ہر ریلوے اسٹیشن والے گاؤں میں یہ کام شروع کروادیا ہے، اور الحمدللہ بڑے مؤثر طریقے پر چھوٹے چھوٹے گاؤں میں یہ کام ہورہا ہے، اس کے آگے بھی ان کے بہت سارے عزائم ہیں۔
اللہ تعالٰی عافیت کے ساتھ کامیابی عطا فرمائے۔آمین

حضرت مولانا کارگذاری سنانے والے حضرات کو قیمتی مشورے اور ہدایات بھی دیتے رہے، چنانچہ جب ایک صاحب نے کہا کہ ہم لوگوں نے عید کے موقع پر غیرمسلموں میں مٹھائی تقسیم کی، تو حضرت مولانا نے تمام حضرات کو یہ ہدایت دی کہ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس کی وجہ سے ہم لوگوں کو بھی ان کے تہواروں میں شرکت کرنی پڑے، اور ان کے یہاں کھانا پڑے گا، یہ غلطی بالکل نہ ہو کہ انھیں قریب کرنے کے چکر میں ہم ان کے قریب چلے جائیں، لہٰذا شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہر وہ  کام کرسکتے ہیں جو انسانیت کا پیغام پہنچانے میں کارگر اور مؤثر ہو، اس میں کوئی مخصوص کام منزل من اللہ نہیں ہے کہ یہی کیا جائے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہ کیا جائے، پیام انسانیت کے کام کی اسی حساسیت نے بندہ کو اس طرف متوجہ کیا۔

فی الحال پیام انسانیت کے بینر تلے درج ذیل کام انجام دئیے جارہے ہیں۔

ہسپتالوں میں فروٹ اور دیگر اشیاء کے ساتھ مریضوں کی عیادت
غریبوں کے علاج کے لیے رقومات کی فراہمی
اولڈ ایج ہوم کی ملاقات
بچوں کی جیل میں ملاقات
بڑوں کی جیل میں ملاقات
مینٹل ہاسپٹل میں ملاقات
جذامی، ایڈزدہ مریضوں سے ملاقات
میڈیکل سے دواؤں کی فراہمی
میڈیکل کیمپ
بلڈ ڈونیشن کیمپ
ریلوے اسٹیشن پر کھانوں کی تقسیم
گرمی کے موسم میں جگہ جگہ واٹر کیمپ جن میں ٹھنڈے پانی کے جار کے ساتھ ساتھ چھانچھ کا انتظام
بعض علاقوں میں ٹینکروں سے پانی کی فراہمی
ٹریفک پولس کی ناشتہ وغیرہ سے خدمت
پولس انتظامیہ سے ملاقات
سردی کے موسم میں چادروں کی تقسيم
اسکولوں میں غریب طلباء میں اسٹیشنری کی تقسیم
غریبوں میں سبزی کی تقسیم
انسانیت سے متعلق موضوعات پر تحریری مسابقات

الحمدللہ کام تو بہت سارے ہورہے ہیں اور ان سے ہونے والے اثرات کا اگر احاطہ کیا جائے تو باقاعدہ ایک کتاب تیار ہوجائے، بعض کارگذاریاں تو ایسی تھیں کہ جنہیں سن کرآنکھوں سے آنسو نکل پڑیں، خصوصاً اولڈ ایج ہوم، ایڈز زدہ، اور جذامی مریضوں کے حالات وغیرہ ۔۔۔

چار بجے  کارگذاری سنانے کا مرحلہ مکمل ہوا، اس کے بعد پر تکلف ظہرانے کا انتظام تھا، جس میں حریص، بریانی مع لوازمات، ڈرائے فروٹ تھے، ان سب سے مکمل انصاف کے بعد کچھ دیر آرام کے بعد عصر کی نماز ادا کی گئی، عصر کے بعد چائے بسکٹ کا نظم تھا، اس کے بعد مشورہ ہونا تھا کہ کام کو مزید آگے بڑھانا ہے، اس کے لئے صوبوں میں حلقے تشکیل دئیے جائیں اور جہاں کام نہیں ہے وہاں کام پہنچانے کی ذمہ داری بھی کارکنان کو سونپی جائے، چنانچہ دیگر صوبوں کے ساتھ صوبہ مہاراشٹر کے چار حلقے بنائے گئے جس میں مالیگاؤں حلقہ (جس کے تحت دھولیہ، جلگاؤں، بھساول وغیرہ آتے ہیں) کی ذمہ داری حضرت مولانا جمال عارف صاحب کو دی گئی اور ان کے ساتھ مولانا ساجد خان ندوی، مفتی مصعب، اور بندہ کو بھی حضرت کا معاون بنایا گیا، ورکشاپ کا یہ مرحلہ بھی بحسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔
اسی وقت مدرسہ معھد ملت کے چند فارغین جو کہ "المعھد العالی الاسلامی" میں تخصصات میں داخلے کے لیے حیدرآباد آئے ہوئے تھے، جن میں مفتی کاظم ملی سلمہ بھی تھے، جنہیں تخصص فی الحدیث میں داخلہ لینا تھا، استاذ محترم سے ملاقات کے لئے وہاں حاضر ہوئے، اور دوسرے دن رات تک یہ طلباء ہم لوگوں کے ساتھ رہے۔

مغرب کی نماز کے بعد عشاء تک حضرت مولانا بلال صاحب کا پیام انسانیت کے عنوان سے مسجد کے اصل حصے میں بڑا پرمغز اور فکر انگیز عمومی خطاب ہوا، جس میں سامعین کی ایک بڑی تعداد نے حضرت کے خطاب سے استفاده کیا۔

عشاء کی نماز کے بعد واٹس ایپ گروپ کے دوسرے ساتھی مولانا عبدالرزاق بلال ندوی سے ملاقات ہوئی، بڑے خوش مزاج نوجوان ہیں، اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔

رات کے کھانے کا نظم بھی بہترین رہا، انتظامیہ نے اس ورکشاپ کو ہر طرح سے کامیاب کرنے کے لیے بڑی محنت و جدوجہد کی تھی، جیسا کہ مذکورہ واقعات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، اس کام کو ان حضرات کی مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ آمین ثم آمین

کھانے کے بعد استاذ محترم اور تمام طلباء کے ساتھ چہل قدمی اور چائے نوشی کے لئے نکلے، چائے کے معاملے میں حیدرآباد مالیگاؤں سے کافی پیچھے ہے، ان تین دنوں میں مالیگاؤں جیسی "اچھی چائے" کہیں نصیب نہیں ہوئی، ایک جگہ چائے ایسی تھی جسے مالیگاؤں کے بعض چائے کے ماہرین کی زبان میں "کاڑھا" بھی کہا جاسکتا ہے۔
واپسی کے بعد کچھ دیر طلباء سے علمی گفتگو ہوئی ہے، اس کے بعد بستر، ہم اور نیند۔۔

*حیدرآباد میں دوسرا دن*

حیدرآباد میں دوسرے دن بروز اتوار طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں ہندوستان کے مایہ ناز عالم دین "حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی" دامت فیوضھم کی خدمت میں حاضر ہونا تھا، چنانچہ ہم لوگ بذریعہ آٹو مدرسہ "المعھدالعالی الاسلامی" پہنچ گئے، جو کہ ہماری قیام گاہ سے ۱۵ کلو میٹر سے زائد تھا۔
ہمارے ساتھ طلباء کے علاوہ مولانا اسامہ صاحب ندوی بھی ہولئے جو کہ بمبئی کے سانتاکروز علاقے کے رہنے والے ہیں، مولوی صاحب بڑے سنجیدہ اور با صلاحیت عالم ہیں۔
حضرت کے مدرسہ میں تشریف لانے میں ابھی وقت تھا جب تک ہم لوگوں نے مدرسہ کی عمارت کے چکر لگالئے، دو چار اساتذہ سے ملاقات ہوئی، مدرسہ کی عمارت کافی وسیع و عریض ہے، اور شہر کے کنارے پر سکون پرفضا مقام پر واقع ہے، پڑھنے پڑھانے میں یکسوئی کے لیے بہترین ماحول مہیا کیا گیا ہے، مدرسہ کی کارکردگی بیان کرنے کے لیے تو باقاعدہ کتاب ترتیب دینی پڑے گی، اور ہوسکتا ہے ایسی کوئی کتاب موجود بھی ہو۔
مدرسہ کی سیر کے بعد آفس میں آئے تو حضرت تشریف لا چکے تھے، متعدد افراد حضرت سے ملاقات کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے، حضرت باری باری تمام افراد سے ملاقات کرنے کے بعد ہماری طرف یکسو ہوئے، (کیونکہ متوجہ تو حضرت پہلے ہی سے تھے کہ ہم لوگ مجلس کا حصہ جو تھے، اور یہ حضرت کی بڑی خصوصیت ہے کہ مجلس میں بیٹھے تمام حضرات سے فرداً فرداً مخاطب ہوئے) استاذ محترم نے ہمارا تعارف کرادیا، (ملحوظ رہے کہ مولانا جمال عارف کے مولانا خالد سیف اللہ صاحب سے پہلے سے بڑے گہرے مراسم ہیں) کچھ دیر حضرت سے مختلف معاملات اور مسائل پر گفتگو ہوتی رہی ہے، ظہر کا وقت ہوچلا، نماز کے بعد جیسا کہ مولانا نے پہلے ہی یہ حکم دے دیا تھا کہ ظہرانہ آپ لوگوں کو یہیں کرنا ہے، چنانچہ مدرسہ کی آفس میں ہی ظہرانہ تناول کیا گیا، اس کے بعد حضرت سے مصافحہ کرکے اور ان کی دعائیں لیتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے رخصت ہوئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت سے بار بار ملاقات کی سعادت نصیب فرمائے۔

مولانا موصوف کو اللہ تعالٰی نے علم کے ساتھ عاجزی اور انکساری کا ایک وافر حصہ عطا فرمایا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے بعض چھوٹے چھوٹے سوالات کو بھی حضرت نے بڑی توجہ سے سنا اور تفصیل کے ساتھ اس کے جوابات بھی عنایت فرمائے، اللہ تعالیٰ حضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم و دائم رکھے۔

دوپہر تین بجے کے بعد مدرسہ سے نکل کر ہم لوگ بذریعہ بس چار مینار پہنچے، چار مینار کی درستی کاکام چل رہا ہے، اس سے لگ کر نوزائیدہ اور فضول، مخمل پر ٹاٹ کے پیوند کا مظاہرہ کرتا ہوا مندر دیکھ کر بڑی کوفت ہوئی۔
اس کے بعد خریداری کا مرحلہ تھا، اگر آپ شوہر ہیں اور کسی ایسی جگہ آپ جاتے ہیں تو آپ کے لئے یہ امر ضروری ہوجاتا ہے۔ خریدی کرکے شہر حیدرآباد کی وسیع و عریض و بلند بالا تاریخی مسجد "مکہ مسجد" میں عصر کی نماز ادا کی، مسجد کے احاطے میں مرد وزن کا اختلاط دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ آج ہماری مسجدوں کو بھی تفریح گاہ بنادیا گیا ہے۔
اس کے بعد ساحل سمندر "حسین ساگر" کی تفریح کے لیے روانہ ہوئے، وہاں پہنچ کر اس کے بالمقابل باغ میں بھی جانا ہوا، ہمارے ساتھیوں نے کشتی کی سواری بھی کی، چونکہ بس کا سفر ہوگیا تھا جس کی وجہ سے طبیعت تھوڑی بوجھل ہوگئی تھی، اس لئے بندہ نے بوٹنگ نہیں کی۔
کچھ دیر وہاں گذارنے کے بعد طلباء ہم لوگوں سے رخصت ہوکر مدرسہ کے لئے نکل گئے اور ہم لوگ قیام گاہ روانہ ہوگئے، قیام گاہ پر نماز ادا کرنے کے بعد ہمارے میزبان نے عشائیہ کا انتظام کردیا، کھانا کھانے کے بعد چونکہ طبیعت کافی تھک چکی تھی اس لیے آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے اور فوراً نیند کی حسین وادیوں میں کھوگئے۔

*تیسرا اور آخری دن*

فجر کی نماز کے بعد کچھ دیر اور آرام کیا اس کے بعد تقریباً نو بجے اپنی قیام گاہ سے "سالار جنگ میوزیم" کے قصد سے نکل پڑے۔
راستے میں جنوبی ہند کا مخصوص اور مشہور و معروف ناشتہ (مصالحہ ڈوسہ، اڈلی وغیرہ) کا ایک صاف ستھرے انتظام والے سے ٹھیلے سے خرید کر کیا گیا، جو کہ صرف بیس روپے پلیٹ تھا، بڑا سستا ناشتہ تھا، کیونکہ مالیگاؤں کی ہائی وے کی ہوٹلوں پر یہی ڈش ستر اسی روپے میں ملتی ہے، اس کے بعد دس بجے ہم لوگ "سالار جنگ میوزیم" پہنچے، تقریباً تین گھنٹے وہاں ہم لوگوں نے تمام عجائبات اورنوادرات کا معائنہ کیا، میوزیم کی سب سے پُر لطف اور عالمی شہرت یافتہ " گھنٹہ گھڑی" سے ١١ اور ١٢ بجے دو مرتبہ لطف اندوز ہوئے، میوزیم میں خوفناک اور خطرناک ہتھیار، مجسمے، ہاتھ سے بنائے ہوئے نقش و نگار والےبرتن، کپڑے و قالین، اور مخطوطات کا شعبہ بھی بڑا حیران کن تھا، خوشخطی کے ایسے ایسے شاہ کار جن کی تفصیل یہاں ممکن ہی نہیں ہے، ویسے بھی یہ سب چیزیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، کوئی اس کو بیان بھی کرے تو کہاں تک کرے؟
چنانچہ اگر کوئی شخص حیدرآباد تفریح کی غرض سے جائے اور سالار جنگ میوزیم کے عجائبات کا معائنہ کئے بغیر واپس آجائے تو یہی کہا جائے گا کہ وہ آگرہ گیا ہو اور فقط پیٹھا کھاکر واپس آگیا ہو۔
ایک بجے کے بعد ہم لوگ میوزیم سے نکلے، اب یہاں سے چار محل (چاؤ محل) جانا تھا، مولانا اسامہ صاحب کی تین بجے ٹرین تھی چنانچہ وہ ہم لوگوں سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ ان دیڑھ دنوں میں آپ حضرات کا ساتھ ایسا لگا کہ گویا کافی پرانی ملاقات ہے، ان سے رخصت ہوکر ہم لوگ چار محل پہنچے۔
یہ نوابوں کے چارمحل ہیں، جو فن تعمیر میں اپنی مثال آپ ہیں، فی الحال ان کی بھی کی بھی درستی و تزئین کاری کا کام چل رہا ہے، ان محلات میں بھی کچھ عجائبات اور نوادرات رکھے ہوئے ہیں، ہتھیار، ہاتھوں سے لکھے ہوئے قرآن کریم، اسی طرح ایک کپڑے پر پورا قرآن مجید لکھا ہوا ہے، پرانے ماڈل کی کاریں اوربگھی وغیرہ اچھی حالت میں رکھی ہوئی ہیں۔
چارمحل کی تفریح کے بعد چار مینار کے پاس ایک چھوٹی سی مسجد میں ظہر ادا کی، اس کے بعد وہیں ایک ہوٹل میں شامی کباب، پراٹھے اور حیدرآبادی بریانی کا مزا لیا، اور یہاں پر بھی تین افراد کے کھانے کا بِل خلاف توقع صرف ایک سو اَسّی روپے ہوا۔

*حیدرآباد کے الوداعی لمحات*

اب چونکہ حیدرآباد کو الوداع کہنے کا وقت قریب آچکا تھا، لہٰذا ہم لوگ اپنی قیام گاہ پہنچے اور روانگی کی تیاری کرنے لگے، مولانا صدیق صاحب نے راستے میں ناشتہ کے لئے ویج رول ساتھ کردیئے، اور بندہ کو مولانا عبدالقیوم ذیشان صاحب کی طرف سے حیدرآباد کے مشہور "عثمانیہ بسکٹ" کا ہدیہ بھی حوالہ کیا، (مولانا ذیشان صاحب مصروفیت کی بنا پر رخصت کے لئے نہ آسکے) اس کے بعد مسجد کے امام و خطیب مولانا عبیدالرحمن اطہر صاحب ندوی قاسمی (جو قرآن مجید کی بہترین تلاوت کرتے تھے، سادہ انداز میں تجوید کی عمدگی کے ساتھ فجر کی نماز میں طویل قرأت میں ایک سماں بندھ جاتا تھا) سے ملاقات کرکے ہم لوگ بذریعہ آٹو سکندر آباد اسٹیشن پہنچ گئے، چھ بجے ٹرین تھی، پلیٹ فارم پر ہم نے عصر ادا کرلی، اور ٹرین اپنے مقررہ وقت پر چل پڑی، مغرب، عشاء ٹرین میں ہی ادا کی گئی، رات دس بجے نظام آباد اسٹیشن پر رکی تو وہاں مدرسہ معھد ملت کے فارغین حافظ سید حامد اور مولانا غوث صاحب ملی رات کا کھانا اور بوتل میں پانی لئے ہوئے ہمارے منتظر تھے، جس کی اطلاع انھوں نے پہلے ہی دے دی تھی، صرف دو چار منٹ ہی ان حضرات سے باتیں ہوپائیں کہ ٹرین چل پڑی، تھوڑی دیر کے بعد کھانا کھا کر ہم لوگ سوگئے، فجر کی نماز کے بعد دوبارہ سوگئے اور جب آنکھ کھلی تو ٹرین منماڑ اسٹیشن پر کھڑی تھی، چنانچہ ٩ جولائی صبح آٹھ بجے کے بعد منماڑ سے بذریعہ ٹیکسی بخیر و عافیت مالیگاؤں واپسی ہوئی۔ فالحمدللہ علی ذالک

*قلبی تأثرات*

واپسی کے وقت روداد کے لکھنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن بعد میں بعض ساتھیوں اور متعلقین کی فرمائش اور کچھ ان واقعات کا اثر جو اس سفر میں پیش آئے جس کی وجہ سے لکھنا شروع کیا اور جو باتیں ذہن میں آتی گئیں لکھتا چلا گیا۔
الغرض یہ سفر ایک علمی، فکری، تفریحی سفر رہا، اور استاذ محترم کے مشفقانہ اور دوستانہ سلوک نے مزید اسے دوبالا کردیا، حضرت کی شخصیت اب تک ہمارے لئے بڑی بارعب تھی، لیکن پہلی مرتبہ حضرت کی معیت میں ہوئے اس طویل سفر میں ان کے اس انداز نے کافی متاثر کیا، اسی طرح مولانا ساجد ندوی کا ساتھ بھی کافی خوش کن اور تفریح آمیز رہا۔
اللہ تعالٰی ان حضرات کو اپنے شایان شان بدلہ عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
15 جولائی 2018

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں