منگل، 16 اکتوبر، 2018

تکبر کی تعریف، وعید اور علاج

*تکبر کی تعریف، وعید اور علاج*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

تکبر کے لغوی معنی بڑائی کے ہیں، اسی طرح اصطلاح میں بھی اس معنی کو بڑا دخل ہے.
چنانچہ اصطلاح میں تکبر کہتے ہیں ایک ایسی انسانی کیفیت و حالت کو جس میں انسان اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے زیادہ فوقیت اور فضیلت دیتا ہے.

حدیث شریف میں تکبر کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں.

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
تکبر، حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے.
(صحیح مسلم؛ح91،الایمان؛39)

معلوم ہوا کہ تکبر کی ایک قسم حق کو رد کرنا اور اسے قبول نہ کرنا ہے، مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص حق کو ٹھکرا دے تو وہ گویا حق کے مقابلے میں تکبر سے کام لے رہا ہے، کیونکہ بندوں پر فرض ہے کہ وہ ان حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کردیں، جسے اللہ تبارک و تعالی نے اپنے رسولوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے  نازل فرمایا ہے، اسے بلا چوں چرا حق اور سچ مان کر اس کی اتباع کریں، پھر جو لوگ اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیم کا انکار کردیں، وہ کافر اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلنے والے ہیں، اسلئے کہ رسولوں کے ذریعے ان کے  پاس حق پہنچ گیا، دلائل و براھین واضح ہوگئے لیکن چونکہ ان کے دل میں کبر کا ناپاک مرض تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے حق کو قبول کرنے سے انکار کیا.

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں : إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ.
ترجمہ : ان کے دلوں میں اور کچھ نہیں، صرف تکبر ہے. اور وہ اس کو پہنچنے والے نہیں. (سورہ غافر: 56)

یعنی یہ لوگ جو اللہ کی آیات میں بغیر کسی حجت و دلیل کے جدال کرتے ہیں، اور مقصد دراصل اس دین سے انکار کرنا ہے جس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے دلوں میں تکبر ہے۔ یہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور اپنی بے وقوفی سے یوں سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ بڑائی ہمیں اپنے مذہب پر قائم رہنے سے حاصل ہے، اس کو چھوڑ کر مسلمان ہوجائیں گے تو ہماری یہ ریاست و اقتدا نہ رہے گا۔ قرآن کریم نے فرما دیا کہ مّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ یعنی وہ اپنی مزعومہ بڑائی عظمت اور ریاست کو اسلام لائے بغیر نہ پاسکیں گے۔ البتہ اسلام لے آئے تو عزت و عظمت ان کے ساتھ ہوتی۔ (قرطبی)

اسی طرح وہ لوگ بھی جو مکمل طور پر تو حق کا انکار نہیں کرتے، بلکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض وہ باتیں جو ان کی رائے اور سمجھ کے خلاف ہوں ان کی خواہشات اور ھواء نفس سے ٹکراتی ہوں، تو وہ اس کا انکار کردیتے ہیں ایسے لوگ کافر تو نہیں ہیں، البتہ جس قدر تکبر اور حق کی قبولیت سے دوری ان میں پائی جائے گی اسی قدر جہنم میں جلنے کے مستحق ہوں گے.

تکبر کی دوسری قسم وہی ہے جو عوام الناس میں مشہور و معروف ہے،
یعنی مخلوق کے مقابلے میں تکبر، مطلب لوگوں کو اپنے سے حقیر سمجھنا، خود بینی میں مبتلا ہونا اور "مجھ جیسا کوئی نہیں" کے مرض سے دوچار ہونا، اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب آدمی اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور برتر سمجھتا ہے، وہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی غلطیوں پر ٹوکے اور اس کی نشاندہی کرے، بلکہ سب اس کی ہاں میں ہاں ملائیں، اس لئے کہ جو وہ سمجھ رہا ہوتا ہے وہی حق ہے، جو سمجھ اور عقل و دانش اس کے پاس ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے.

اسی کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اچها لباس پہننا، اچهے جوتے استعمال کرنا، اچهی سواری کا ہونا اور اچهی رہائش گاہ کا مالک ہونا تکبر کی علامت نہیں، بلکہ حق کا انکار کرنا، دوسروں کو حقیر سمجهنا اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و اعلی تصور کرنا اور سمجهنا تکبر ہے، جیسا کہ مسند احمد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے.

حضرت ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں کبر کا معمولی سا حصہ بھی داخل نہیں ہوگا، کسی شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! ( ﷺ ) میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میری سواری اور جوتے کا تسمہ عمدہ ہو (کیا یہ بھی تکبر ہے؟) نبی ﷺ نے فرمایا یہ تکبر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے تکبر یہ ہے کہ انسان حق بات کو قبول نہ کرے اور اپنی نظروں میں لوگوں کو حقیر سمجھے.
(مسند احمد)

قارئین کرام ! بڑائی اور عظمت کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے، کیونکہ وہی ہے جو اپنی ذات اور صفات میں سب سے بڑا ہے، اس کی ذات ہر لحاظ سے کامل و مکمل اور جامع ہے، اس لیے اس کے برابر کا نہ کوئی ہے اور نہ کوئی ہو سکتا ہے، اس لیے کبریائی صرف اللہ تعالی کو ہی زیب دیتی ہے، کیونکہ اس کی بارگاہ میں اس کی مرضی کے بغیر کسی کا کوئی درجہ ہے اور نہ ہی کسی کی کوئی حیثیت ہے.

*تکبر کرنے والوں کے لیے وعید*

تکبر کرنے والوں کے لیے قران کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد جگہ وعید وارد ہوئی ہیں، جن میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں.

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

"أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ
{ سورۃ الزمر:60}
ترجمہ : کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے.

نیز فرمایا :" تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا "{سورۃ القصص:83}
ترجمہ : یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں بڑائی اور کبر چاہتے ہیں اور نہ فساد.

معلوم ہوا کہ تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جھنم ہے، اور جنت کو ایسے لوگوں سے پاک رکھا گیا ہے، جب تک متکبر کو جہنم میں جلاکر اس کے غرور اور تکبر کو ختم نہیں کیا جائے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا.

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذاتی بزرگی میری چادر ہے اور صفاتی عظمت گویا تمہارے اعتبار سے میرا تہبند ہے، پس جو ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ جھگڑا کرے گا یعنی جو تکبر کرے گا اس طرح وہ گویا میری ذات و صفات میں شرک کا ارتکاب کرے گا تو میں اس کو عذاب دینے والی آگ میں داخل کروں گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تو میں اس کو آگ میں پھینک دوں گا. (مسلم)

میری چادر اور میرا تہبند ہے جیسے الفاظ حق تعالیٰ نے مثال کے طور پر فرمائے ہیں، اور اس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ دونوں صفتیں یعنی کبرائی اور عظمت صرف میری ذات سے تعلق رکھتی ہیں، جن میں کوئی بھی میرا ساجھی شریک نہیں ہو سکتا جیسے کسی کے لباس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا چنانچہ حق تعالیٰ کی کچھ صفات تو ایسی ہیں کہ جن میں کچھ حصہ بندوں کو بھی دیا گیا ہے، لیکن جو صفات صرف حق تعالیٰ کی ذات کے لئے مخصوص ہیں اور جن کے ساتھ کوئی بندہ اپنے آپ کو بطریق مجاز بھی موصوف نہیں کر سکتا۔ اسی حقیقت کو مثال کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ جس طرح کوئی شخص ان کپڑوں کو نہیں پہن سکتا جو کسی دوسرے شخص کے جسم پر ہوں اسی طرح کبریائی اور حقیقی عظمت بڑائی کا بھی کوئی بندہ دعوی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ دونوں صفتیں صرف میری ذات کے لئے موزوں اور مخصوص ہیں. (مشکوۃ شریف)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے.
(مسند احمد)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالٰی اس کی طرف رحمت کی نظر نہ فرمائے گا.
(بخاری شریف)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، انہیں جہنم کے قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے، آگ ان پر چھا جائے گی اور انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا.
(ترمذی)

حضرت حارثہ بن وھب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تجھ کو نہ بتلاؤں جنت کے لوگ کون ہیں ہر ایک ضعیف ناتواں جس کو لوگ کمزور جانیں، کیا میں تم کو نہ بتلاؤں دوزخ کے لوگ ہر ایک سخت مزاج، بہت روپیہ جوڑنے والا، اور اکڑ والا۔

ذکر کردہ چند آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ پر اکتفا کیا جاتا ہے، اس لئے کہ نصیحت اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے اتنا بھی بہت ہے.

*غرور و تکبر کا علاج*

علماء نے تکبر سے بچنے کے لیے دو قسم کے علاج تجویز فرمائے ہیں جو ذیل میں بیان کئے جارہے ہیں.

*علمی علاج*

تکبر کا علمی علاج اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ انسان جب اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت یا صفت یا کمال پر اپنے نفس میں بڑائی محسوس کرے تو یہ سوچ بار بار پیدا کرے.

1) میرے اندر کا یہ کمال اللہ تعالٰی کا پیدا کردہ ہے یعنی عطائی ہے اور اس کے حصول میں میرا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں ہے.

2) میں کسی ذاتی اہلیت کی بنا پر اس نعمت خداوندی کا مستحق نہیں تھا لیکن اللہ تعالٰی نے یہ کمال عطا فرماکر مجھے اپنی رحمت سے مجھے نوازا ہے.

3) اس کمال کے اللہ کی طرف سے عطا کیے جانے کے بعد اس کو باقی رکھنا میرے اختیار اور بس میں نہیں ہے، کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ اسے سلب بھی کرسکتے ہیں.

4) اگرچہ دوسرے شخص میں یہ کمال فی الحال نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں اسے یہ کمال مجھ سے بھی زائد درجہ میں حاصل ہو جائے.

5) اس کا بھی غالب امکان ہے کہ دوسرے شخص میں کچھ ایسے کمالات ہوں جو میری نظر سے مخفی ہوں اور ان کی بنا پر اس کا رتبہ اللہ تعالٰی کے یہاں مجھ سے زیادہ ہو.

*عملی علاج*

تکبر کا عملی اور بہترین علاج یہ ہے کہ انسان جس کو اپنے نفس سے چھوٹا سمجھے، اس کے ساتھ بیٹھے، کھائے، پئے، گفتگو کرے، دوستی کرے، اس کا احترام کرے، اس کے بارے تحسین کے کلمات کہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ مثلاً ایک امیر اپنے تکبر کو غربا میں بیٹھ کر اور ایک عالم دین اپنے تکبر کو طلبا میں بیٹھ کر دور کر سکتا ہے.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کی اس مہلک و موذی روحانی مرض سے حفاظت فرمائے، اور تواضع و انکساری جیسی صفت محمودہ سے ہم سب کو مالا مال فرمائے.
آمین یا رب العالمین

*وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ*
12 مارچ 2018

2 تبصرے: