*سفلی علم کے ذریعے علاج کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام شرع متین درمیان اِس مسئلہ کے کہ کوئی بندہ سفلی علم سیکھے یا سیکھائے اور کوئی بندہ سفلی علم کے ذریعہ علاج کرے یا علاج کروائے ایسا شخص کا شریعت میں کیا حکم ہے؟ حاصل کلام یہ کہ زید کے ایمان میں کوئی فرق آئے گا؟
زید کہتا ہے کہ سفلی علم کے ذریعہ علاج کروانا حرام ہے نکاح اور ایمان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
مفتیان کرام جواب مرحمت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ سفیان ملی، مالیگاؤں )
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب باللہ التوفيق : عام حالات میں کسی مسلمان کے لئے جادو و سفلی کے دفعیہ کے واسطے بھی جادو سیکھنے کی اِجازت نہیں ہے، ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے، تاہم اس کی وجہ سے تجدیدِ ایمان و نکاح لازم نہیں ہوتا، بلکہ توبہ و استغفار کرلینا کافی ہے۔ ہاں اگر سیکھنے والے نے خدانخواستہ کوئی کفریہ یا شرکیہ عمل برضا ورغبت کیا ہوتو پھر اس کے لیے تجديد ایمان اور شادی شدہ ہوتو تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا۔
اگر کسی پر جادو سفلی وغیرہ کے اثرات ہوں تو اس کا علاج بھی اعمالِ قرآنیہ اور کلماتِ غیر شرکیہ کے ذریعہ ہی کرانا چاہئے۔ البتہ اگر کوئی شخص خدا نخواستہ اِس میں ایسا مبتلا ہوجائے کہ اضطراری حالت میں پہنچ جائے اور جادو کے توڑ کے لئے سفلی اَعمال ناگزیر ہوں، تو ایسے وقت میں چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے، جبکہ غالب گمان ہو کہ
١) مثاثر شخص پر سفلی عمل کیا گیا ہے۔
٢) اس کی کاٹ غیر سفلی عمل کے ذریعہ نہ ہورہی ہو۔
٣) صرف دفع ضرر مقصد ہو، دوسرے کو تکلیف پہنچانا پیش نظر نہ ہو، ان شرطوں کے ساتھ دفع ضرر کے لیے کسی غیر مسلم سے سفلی عمل کے ذریعہ علاج کرانے کی گنجائش ہے، بہ شرطیکہ وہ مریض کو کوئی نجس اور حرام چیز نہ کھلائے اور نہ ہی شرکیہ کفریہ کلمات مسلمان مریض سے کہلوائے بلکہ غیرمسلم خود ہی اپنے عمل کے ذریعہ سفلی عمل کے مضر اثرات کو دفع کردے، کسی مسلمان عامل یا مولوی کے لیے سفلی عمل سیکھنا اور اس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے۔
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ : كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٢٠٠)
قَالَ الشُّمُنِّيُّ : تَعَلُّمُهُ وَتَعْلِيمُهُ حَرَامٌ. أَقُولُ : مُقْتَضَى الْإِطْلَاقِ وَلَوْ تَعَلَّمَ لِدَفْعِ الضَّرَرِ عَنْ الْمُسْلِمِينَ۔ (شامی : ١/٤٤)
الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 جنوری 2017
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللّہ
جواب دیںحذف کریں