*سائنس اور دیگر علوم کی شرعی حیثیت*
سوال :
کیا سائنسی و دیگر (ریاضی، معاشیات، ٹیکنالوجی) علوم حاصل کرنا کفر ہے؟ کیا سائنسی علوم کا شمار دنیاوی علوم میں ہوتا ہے؟ کیا دین اور دنیا دو الگ چیزیں ہیں؟ کیا دین اور دنیا میں فرق کرنا درست ہے؟
(المستفتی : قدسی فیصل سعود، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سائنس و دیگر علوم مثلاً ریاضی، معاشیات، ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرنا فی نفسہ جائز اور درست ہے، اسے مطلقاً کفر کہنا سخت غلطی ہے، البتہ سائنس کے بعض ان فلسفوں کو تسلیم کرنا جن میں کفریہ باتیں شامل ہیں جیسے دنیا کا خود بخود وجود میں آنا، انسان کی اصل بندر کا ہونا وغیرہ کفر ہیں، اسی طرح ٹیکنالوجی پر ایسا بھروسہ کرنا کہ گویا یہی سب کچھ ہے بلاشبہ کفر کہلائے گا ۔
سائنس کا شمار دنیاوی علوم و فنون میں ہوتا ہے، اور دین و دنیا دونوں بلاشبہ الگ الگ ہیں، اس کی تفریق وضاحت کے ساتھ سمجھ لی جائے ۔
علم کے اگر لغوی معنی مراد لئے جائیں تو اس میں ہر قسم کی معلومات شامل ہے، خواہ دینی ہو یا دنیاوی جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ۔
{وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّہَا}
ترجمہ : اور آدم کو سارے نام سکھادئیے ۔
اور حضرت داؤد علیہ السلام کے تذکرہ میں فرمایا {وَعَلَّمْنَاہُ صَنْعَۃً لَبُوْسٍ لَکُمْ}
ترجمہ : اور ہم نے ان کو زرہ (بنانے) کی صنعت تم لوگوں کے (نفع کے) واسطے سکھلائی ۔
ان مواقع پر علم سے مراد علم لغوی مراد ہے، جو دینی اور دنیوی سب علوم کو شامل ہے، لیکن اگر اصطلاحی معنی کا خیال رکھا جائے تو قرآن وسنت کی نظر میں علم کا اطلاق صرف علمِ دین پر ہوتا ہے، اور یہی علم انبیاء علیہم السلام کی میراث ہے، جو بذاتِ خود باعثِ اجر وثواب ہے، کیوں کہ اس علم سے حلال اور حرام کے درمیان تمیز ہوتی ہے، صحیح اور غلط کا فیصلہ ہوتا ہے، اور اسی سے اﷲ تعالیٰ کی معرفت نصیب ہوتی ہے، اس کا تذکرہ درج ذیل آیات میں کیا گیا ہے ۔
{وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلاَّ اُولُو الْاَلْبَابِ} [البقرۃ: ۲۶۹]
ترجمہ : اور جس کو سمجھ ملی ہے اس کو بڑی خوبی ملی اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔
{وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ آمَنَّا بِہٖ} [آل عمران: ۷]
ترجمہ : اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہم اس پر یقین لائے ۔
{قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ} [الفاطر: ۲۸]
ترجمہ : آپ کہہ دیجئے کہ کیا جاننے والے اور نا جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں ۔
{اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء} [الفاطر: ۹]
ترجمہ : خدا سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں ۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علم کا سیکھنا ہر مومن پر فرض ہے، اس سے مراد روزہ، نماز، حلال وحرام اور حدود واحکام کی معرفت حاصل کرنا ہے ۔
(الفقیہۃ والمتفقہ ۵۳۲)
حضرت حسن بن الربیعؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ سے پوچھا کہ ارشاد مبارک : ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘ (علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے) اس کا مطلب کیا ہے؟
تو حضرت عبدﷲ بن مبارکؒ نے جواب دیا کہ اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں ہے، جو تم حاصل کرتے ہو؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملہ میں مبتلا ہو تو اس کے بارے میں پہلے جانکار لوگوں سے علم حاصل کرلے ۔ (الفقیہ والمتفقہ ۵۲)
اس کے برخلاف جو دنیوی علوم ہیں وہ علوم نہیں، بلکہ ذرائع معاش ہیں، کیوں کہ ان علوم پر آخرت میں علم ہونے کی حیثیت سے کسی ثواب کا وعدہ نہیں ہے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی ان علوم کے ذریعہ خیر کا کام بجالائے گا تو اسے ان کاموں کا یقیناً ثواب ملے گا ۔
مثال کے طور پر ڈاکٹری کا علم ہے، تو محض ڈاکٹر ہونا آخرت میں نجات کے لئے کافی نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی ڈاکٹر اپنی ڈاکٹری خدمتِ خلق کے لئے استعمال کرے، تو اسے خدمت خلق کا ثواب ملے گا ۔
اس کے بالمقابل ایک عالم یا حافظ قرآن ان کے لئے اس علم وحفظ ہی کو آخرت میں رفع درجات کا سبب بتایا گیا ہے، مثلاً عالم کو عزت کا جوڑا پہنایا جانا اور حافظ کو کرامت کا تاج پہنایا جانا وغیرہ، اس کے متعلق متعدد احادیثِ شریفہ موجود ہیں، ایسی بشارت کسی اور فن کے سیکھنے والے کو نہیں دی گئی ہے، یہ صرف علم نبوت کے ساتھ خاص ہے،
لہٰذا علوم نبوت اور علوم عصریہ کو ایک درجہ میں ہرگز نہیں رکھا جاسکتا، دونوں کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے۔
البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دنیا چونکہ دارالاسباب ہے، اس لئے یہاں معاشی یا سماجی ضرورت کے لئے منکرات سے بچتے ہوئے کسی بھی دنیوی علم یا فن کو سیکھنا فی نفسہٖ منع نہیں ہے، اور اگر ان کو سیکھنے میں نیت دین کی سربلندی کی شامل ہوجائے، تو یقیناً وہ ایک امرمستحسن ہوسکتا ہے، لیکن ان سب کے باوجود علم دین کی حیثیت اپنی جگہ ممتاز اور مسلّم ہے، اس کو دنیوی علوم کے ہم پلہ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ (مستفاد: امداد الاحکام ۱؍۲۲۳، احسن الفتاوی ۱؍۴۵۳-۴۵۴، دعوتِ فکر وعمل ۳۸۴، لمحاتِ فکریہ ۲۴۴-۲۴۵/کتاب النوازل)
امید ہے کہ مذکورہ بالا تفصیلات سے دینی اور دنیوی علوم کا فرق واضح ہوگیا ہوگا ۔
عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’العلمُ ثلاثۃ، فما وراء ذٰلک فہو فضل؛ آیۃ محکمۃ، أوسنۃ قائمۃ، أوفریضۃ عادلۃ۔ (سنن ابن ماجۃ رقم: ۵۴، سنن أبي داؤد رقم: ۲۸۸۵، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البرّ القرطبي ۱۹۲، رقم: ۱۷۴)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم دخل المسجدَ فرأی جمعاً من الناس علی رَجُلٍ، فقال: ما ہٰذا؟ قالوا: یا رسول اللّٰہ علاَّمۃ۔ قال: وما العلامۃ؟ قالوا: اعلمُ الناس بأنساب العرب، وأعلمُ الناس بعربیۃ، وأعلم الناس بشعر، وأعلم الناس بما اختلف فیہ العرب، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ہٰذا علم لا ینفع وجہل لایضرہ‘‘۔ (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البرّ القرطبي ۱۹۲، رقم: ۱۷۵)
والمراد بالعلم العلم الشرعي الذي یفید معرفۃ مایجب علی المکلف من أمر دینہ في عباداتہ ومعاملاتہ، والعلم باللّٰہ وصفاتہ، وما یجب لہ من القیام بأمرہ، وتنزیہہ عن النقائص، ومدار ذٰلک علی التفسیر والحدیث والفقہ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاري ۱؍۱۴۱ بیروت)
فیفہم منہ أن العلم لایطلق إلا علی علم الشریعۃ۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري ۲؍۴۲ بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 صفرالمظفر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں