*انکم ٹیکس ایک ظالمانہ محصول*
ٹیکس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر حکومت کے جائز اخراجات دیگر جائز ذرائع سے پورے ہوجاتے ہوں ،تو عوام پر ٹیکس لاگو کرنا جائز نہیں۔لیکن اگر حکومت کے جائز اخراجات اس کے بغیر پورے نہ ہوتے ہوں ،تو جیسا کہ ہمارے زمانہ کا حال ہے تو مندرجہ ذیل چند شرائط کے ساتھ ٹیکس لگانے کی گنجائش ہے۔
1) صرف بقدر ضرورت ٹیکس لگایا جائے۔
2) ٹیکس کی مقدار لوگوں کے لیے قابل برداشت ہو۔
3) تعیین و تشخیص صحیح ہو۔یعنی ٹیکس ہر شخص پر اس کی حیثیت کے مطابق لگایا جائے ، یعنی اس کی آمد و مصارف کو پیش نظر رکھ کر ٹیکس کی شرح تجویز کی جائے۔
4) حکومت کے مصارف کو اسراف و تبذیر سے پاک کیا جائے۔
5) اونچے طبقہ کے ملازمین کی تنخواہوں کو افراط سےگرا کر اعتدال پر لایا جائے۔
6) اس ٹیکس کی وصولی کا طریقہ لوگوں کے لیے ایذاء رساں نہ ہو۔
جن ٹیکسوں میں یہ شرائط موجود نہ ہوں وہ، *ظالمانہ ٹیکس* ہیں ،اور چونکہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میں خاص کر انکم ٹیکس میں یہ شرائط موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح اس کے مصارف میں بھی محرمات کی بہتات ہے مثلاً
1) منکرات، فواحش، عریانی۔ فحاشی کو فروغ دینا۔
2) لہوولعب اور مسرفانہ طوروطریق۔
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہم سرے سے اس ٹیکس کی مخالفت نہیں کررہے ہیں۔ اور نا ہی ہم اسے ادا نہ کرنے کے حق میں ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جمہوری حکومت کے نظام کو چلانے میں انکم ٹیکس ایک اہم رول اداکرتاہے۔ اسکے بغیر نظام حکومت درہم برہم بھی ہوسکتا ہے۔ہم مخالف ہیں اس کے نفاذ میں بےاعتدالیوں اور غیر منصفانہ قوانین کے اور اسے *ظالمانہ* کہنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات صرف ہم ہی نہیں دوسری قوموں کے افراد بھی کہتے ہیں اور اس ٹیکس کو بچانے میں وہ حضرات سو جتن کرتے ہیں۔
بینک کے سود کی رقم سے انکم ٹیکس کی ادائیگی کرنا تو اسکی گنجائش علماء نے دی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔ جب سود کی رقم انکم ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال کی طرف لوٹے گی۔اور ایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض علماء کے نزدیک سودی رقم کو رفاہ عامہ کے لئے خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر سودی رقم کو انکم ٹیکس میں دیا جائے اور حکومت اسے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرے تو ایسا کرنا بھی جائز ہوگا۔ چنانچہ اسلامک فقہ اکیڈمی میں سینکڑوں علماء اور مسلمان ماہرین معیشت نے یہی فیصلہ کیا گیا ہے جو شائع موجود ہے۔
لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي ۶؍۳۸۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 فروری 2017
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں